جمعہ، 22 جنوری، 2016

فاتح

"رابعہ دروازہ اچھی طرح بند کرلو۔میں شام تک لوٹوں گی۔ ہانڈی چڑھا لینا اور پوچھ کر دروازہ کھولنا۔" رقیہ نے چادر اوڑھتے بیٹی کو نصیحتیں کیں اور باہر نکل گئی۔ رابعہ نے بڑھ کر چٹخنی چڑھائی اور اندر پہنچ کر بیڈ کے نیچے سے موبائل فون نکال کر کوئی نمبر ملایا۔"میں بس دس منٹ میں نکل رہی ہوں۔تم جیولر کی دکان پر پہنچو۔"
گھنٹے میں رابعہ واپس گھر پہنچ چکی تھی۔ اوسان بحال ہوئے تو ہانڈی روٹی کا سوچتی باورچی خانے میں آئی ہی تھی کہ برقی گھنٹی نے شور مچادیا۔"اس وقت کون آگیا۔۔۔" خودکلامی کرتے بلند آواز میں دریافت کیا "کون۔۔۔؟"
بھاری بھرکم آواز تھی "میں احسن۔۔امی نے کھیر بھجوائی ہے۔"
رابعہ نے دوپٹہ درست کرتے دروازہ کھولا تو شرماتے ہوئے سلام کرتے کھیر کا برتن پکڑلیا۔"امی گھر پر نہیں ہیں آپ سامنے خالہ کے گھر انتظار کرلیجیے۔"
"ارے۔۔۔ممانی نہیں ہیں تو کیا ہمیں اندر آنے کی بھی اجازت نہیں ؟ منگیتر ہونے کا بھی مارجن نہیں ؟"
رابعہ نے مسکراتے ہوئے خالہ کے دروازے کی جانب اشارہ کیا اور داخلی دروازہ بند کرلیا۔
احسن اپنی ماموں زاد کی اسی شرم و لحاظ پر فدا ہوتے ماں کو مجبور کرکے منگنی کروا چکا تھا۔اب بھی اپنی پسند پر نازاں ممانی کی بہن کی جانب بیٹھا خاطر مدارت کروا رہا تھا۔
آج رابعہ کی پھپھو شادی کی تاریخ لینے آئی تھیں اور خاندانی رواج کے مطابق سارا گھر رشتے داروں سے بھرا پڑا تھا۔رابعہ نے اکلوتی سہیلی شرمین کو ہاتھ بٹانے کیلیے بلوایا تھا۔شام تک گہما گہمی کچھ ماند پڑی تو برتن سمیٹتی شرمین کو رابعہ نے باورچی خانے آنے کا اشارہ کیا۔مومی کاغذ میں لپٹی بھاری سی چیز اس کو تھماتے بولی "یہ بیگ میں رکھ لو ۔ دونوں کا  کیا کرنا ہے تم جانتی ہو۔" شرمین کی آنکھوں میں چمک سی دوڑ گئی۔
رات کو رقیہ نے سرہانے تلے ہاتھ پھیرا  اور مطلوبہ شے نہ ملنے پر گھر میں ہنگامہ کھڑا ہوچکا تھا۔۔۔۔ "میں کہتی ہوں جس بےغیرت نے یہ حرکت کی ہے اللہ اسے دنیا میں ہی دکھائے۔غضب خدا کا ایسے چور رشتہ داروں سے اللہ بچائے۔بیٹی کی تاریخ پکی کرنے آئے اورسامان سمیٹ کر رفو چکر۔کیڑے پڑیں،اپنی اولاد سے بھرے۔۔۔۔۔۔"
بددعاؤں اور کوسنوں کا یہ سلسلہ شادی کی خریداری اور ہنگاموں میں دب گیا تھا۔اگرچہ سلگتی چنگاری ہوا مِلنے پر دوبارہ سے بھڑک اٹھتی۔
شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی تھی۔خاندان کی پہلی شادی تھی اور یوں بھی بقول خالہ زرینہ باہر کی کمائی میں برکت تھی۔ احسن کو شرماتی لجاتی رابعہ معصومیت کا پیکر محسوس ہورہی تھی
صبح جب شرمین دلہن کے گھر سے ناشتہ لے کر آئی تو خوشبوؤں میں بسا احسن کسی فاتح کی مانند کمرے سے نکلتا فون ملا رہا تھا۔ شرمین سلام کرتی اندر چلی گئی۔
"ھیلو ! ہاں جہانزیب کیا بنا یار؟ جان چھڑواؤ اس بازارو عورت سے۔ایسی لڑکیاں شادی مٹیریل نہیں ہوتیں اور اس کا احساس رابعہ کو بیوی بنا کر ہوگیا ہے۔۔۔۔ہمممم۔۔۔ بلے وئی۔ اسے بتا دو کہ ٹائم پاس تھی اور میرے والدین شریف لڑکی کو بہو بنا کر لے آئے ہیں۔زیادہ شور کرے تو کہہ دینا کہ تصاویر اس کے بھائی کو بھجوا دیں گے۔اچھا چل شام کو ولیمےمیں آرہا ہے نا؟ "
رابعہ نے شرمین کو دیکھتے ہی سونے کے کنگن کی جانب اشارہ کیا۔۔"یہ منہ دکھائی ملی ہے۔ شکر ہے اچھے وقت میں اُس کنگال سے جان چھڑوا لی۔"
شرمین نے آہستہ بولنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی کرتے بولی " بہت مشکل سے کمینے انسان کو راضی کیا ہےاس رقم میں۔جا مر رہا ہے پرسوں ۔لگ گیا ہے ویزا ۔اور سنا ہے وہاں خالہ کی بیٹی سے ہی نسبت طے ہوگئی ہے۔"
رابعہ نے گہری سانس لی " جانتی تو ہو کہ  اماں کی انگوٹھی بیچ کر پیسے اس کے منہ پر مارے اور تصاویر واپس لیں تو ہم سمجھے تھے کہ جان چھوٹ گئی۔مگر کمال بےغیرت نکلا۔اماں کا موبائل فون جب تمہیں بیچنے کو دیا تو کیسے خود کو مطمئن کیا۔بس کچھ مت پوچھو۔خود تو ایسا گھٹیا سیکنڈ ھینڈ موبائل نہ چھوڑا،واپس منگوا لیا۔"
شرمین نےاس کا دپٹہ درست کرتے کہا "بھول جاؤ ان باتوں کو۔احسن بھائی بہت شریف انسان ہیں۔پھر کچھ عرصہ میں تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے۔جان چھوٹے گی سسرال کے جنجال سے۔فاتح تو میری سہیلی ہی رہی نا۔"
دونوں ایک دوسرے کو گلے لگاتے کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔

2 تبصرے:

  1. برابر کی ٹکر ! ویسے آپ نے معاشرے کے انحطاط کا نقشہ خوب کھینچا ہے مگر اس میں ایک "تسلی " بھی ہے کہ شکر ہے کوئی ایک "معصوم " اپنی سادگی میں نہیں لٹ رہادونوں ہی سیانے کوے ہیں :) مختصر اور بہترین !!
    شاباش افشاں :))

    جواب دیںحذف کریں
  2. دونوں پلڑوں کا وزن برابر
    تقابلی بیانیہ
    بہت ہی کمال اور عمدگی سے لکھا

    جواب دیںحذف کریں