ہفتہ، 23 جنوری، 2016

قومی سانحہ

باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر دھشتگردوں کا حملہ کیا ہوا اپنی زندگیوں میں مصروف لوگوں کی توجہ وقتی طور پر ایک بار پھر بہتے ناسور کی جانب مبذول ہوگئی۔
واجبی تعلیم اور محدود معلومات رکھنے والے پاکستانیوں نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو ہر پلیٹ فارم پر ایسی قیامتِ صغریٰ دیکھنے کو ملی جس میں سب ہی "توجہ" کا صور پھونکنے میں مصروف تھے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا جس طرح اس کا محلِ وقوع بیان کررہا تھا اب کبھی جانا ہو تو نقشہ سارا ذہن میں محفوظ ہے۔لاشوں اور زخمیوں کی براہِ راست فوٹیج دکھانے والےیقیناً اپنے گھر کی میتیں یوں دکھانے کا حوصلہ رکھتے ہی ہوں گے۔
اپنے اپنے بابوں کو اوپر رکھنے کیلیے ملبہ دوسرے مسالک پر ڈال دینا یا یہود و ہنود کی سازش قرار دے دینا کوئی نئی بات نہیں۔مگر اس کا کیا کیجے کہ "اللہ اکبر"  کا اعلان کرتے رب العالمین کی مخلوق سے زندگی کا حق چھیننے والوں کی عمریں ہمیشہ چودہ سے اکیس کے درمیان ہی ہوتی ہیں۔کچے اذہان کو تشریحاتی جنت اور حور کے لتھڑے تصور سے روشناس کروانے والوں کا تعلق انہی آماجگاہوں سے ہے جو ہمارے ایک جنرل صاحب کے مطابق ریاست کا پانچواں ستون ہیں اور بھارت سے جنگ ہو تو یہی بچے دشمنوں پر پھٹ کر دانت کھٹے کریں گے۔اب اُدھر جنگ ہوتی نہیں تو کہیں نا کہیں پھٹ کر تربیت کا اظہار کرنا بھی تو لازم ٹہرا۔تناور پیڑ کو دیکھتے ہم اس کی پنیری لگانے والوں،گوڈی اور آبیاری کرنے والوں کو یکسر فراموش کردیا کرتے ہیں۔
بےحسی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی کہ کسی ماں کا جگر گوشہ چند چیتھڑوں کی صورت تابوت میں بند گھر آئے اور ریاست ماں کا بیانیہ ہو کہ  "نقصان کی شدت اور نوعیت کم ہے۔"۔۔۔ اپوزیشن کرسیوں پر براجمان دانشور فرماتے ہیں کہ ریاست دفاع پر اسی طرح پیسہ لگائے جیسا پلوں اور بسوں پر لگا رہی ہے۔یہ تو معیار ہے آپ کی دانشوری اور مسائل کے حل کا۔جب آپ لوگ بھول ہی جائیں کہ ضربِ عضب نامی سفید ہاتھی کتنے بلین پر پالا گیا ہے، سالانہ دفاعی بجٹ کتنا ہے اور تعلیم و صحت پر کیا لگایا جارہا ہے۔کبھی کسی نے پلٹ کر سوال نہیں کیا کہ کتنے ویر جوان شہید ہوچکے ،ان کی تفصیلات کیا ہیں یا کہاں دفن کیے جارہے ہیں۔
اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ ہمارا محافظ گالیاں بکتا کبھی کہے کہ چار دھشتگرد ہم نے جہنم واصل کیے اور اگلےہی سانس میں انکشاف کرتا ہے کہ دو خود کش جیکٹیں پھٹ گئیں اور دو کی جیکٹس سلامت رہیں۔جبکہ ابتدائی اطلاعات میں تین دھشتگردوں کے فرار کی خبر بھی گرم رکھی گئی۔کسی نے اُن سے سوال کیا کہ "ضربِ عضب میں آپ خود کو کتنا کامیاب تصور کرتےہیں ؟ " صاحب کا جواب تھا کہ یہ سوال آپ کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے،یہ پلیٹ فارم ایسے سوالات کا متحمل نہیں۔وما علینا الا البلاغ المبین۔
مسئلہ اس سے بھی کہیں زیادہ اذیت ناک تب ہوجاتا ہے کہ جب سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر آپ کو قوم کے نام پر ہیجان زدہ ہجوم دیکھنے کو ملے۔چند فالؤرز،کچھ لائکس اور بیشتر ری۔ٹویٹس کی بھوک میں لوگ ہر قسم کا چورن، سستے معجون اور گھٹیا منجن  کی  کم نرخوں پر خریدو فروخت جاری رکھتےہیں۔کوئی سِول اداروں کو رگیدے گا تو کوئی عسکری موضوع پر دانشور بنا ابکائیاں کرتا دکھائی دےگا۔یہاں آپ کو بوٹ پالش کرتے ضمیر فروش دکھائی دیں گے تو اپنے سیاسی و مذہبی اکابرین کی خاطر ایمان بیچتے ذہنی مریضوں کی بھی کچھ قلت نہیں۔
تاریخ ، جغرافیہ ، عالمی و مقامی سیاسی پس منظر کے علاوہ مذہبی و مسلکی معاملات میں مطالعہ و تحقیق کے نام پر چند اخباری تراشے اور کچھ پلانٹڈ خبروں پر تکیہ کیے سوشل میڈیائی بقراط کفر و غداری کے فتوے چند گھنٹے تقسیم کریں گےاور شام میں جب دیکھیں تو ہنسی ٹھٹھے کا سامان،جُگتوں بھرا اجتماع اور وہی گھسے پٹے سیاسی ٹاک شوز کے ٹوٹے چلائے جائیں گے۔دو چار ٹرینڈز بنالیے اور زندگی واپس اپنی ڈگر پر۔زخم صرف اُن والدین کا ہرا رہے گا جنہوں نے اولاد سے وابستہ روشن امیدوں کو خون کا غسل کیے منوں مٹی تلے  مدفون ہوتے دیکھا۔ سکون و خوشی ہمارے ہاں دو سانحات کا درمیانی وقفہ بن کر رہ گئے ہیں۔
ہمارے ہاں اگر ظالمان کے دفاتر کھلوانے والے عوامی نمائندے موجود ہیں تو لال مسجد میں بٹھائے ٹائم بم کا دفاع کرنے والے اعلیٰ اذہان بھی پائے جاتےہیں۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہوگا مگر قاتل اور دھشتگرد کی تعریف کیلیے اختلافات صرف یہ بتاتے ہیں کہ آپ ان کے آگے  پنجابی والے "کانے" ہیں۔
ایک مائکرو بائیولوجسٹ ، پروفیسرز یا علم حاصل کرتے بچے درسگاہوں میں ملک و قوم اور گھرانوں کے روشن مستقل کیلیے جاتے ہیں۔ان کے ذمہ وہی کام ہے مگر عوامی ٹیکسوں سے تنخواہیں وصولتے محافظ  اور ریاست چلاتے نمائندگان کا فرض ان بچوں کے کھاتے کیوں ڈالا جارہا ہے۔سخت اور کڑے فیصلے کرنا اور دھشتگردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ان درسگاہوں سے وابستہ لوگوں کا کام نہیں اور نہ ہی اپنی جانیں گنوا کر شہداء کا رتبہ پانا ۔ ماں اپنے بچے کو وطن پر قربان ہونے کیلیے سرحد پر بھیجتی ہے تعلیمی اداروں میں نہیں۔ کبھی سوچیے گا کہ ہمارے بچوں کو سکول کی وردیاں پہنا کر دشمن کوسُر سنگیت میں للکارتے،پکارتے اُن کی ڈھال بننے کی بجائے اگلی صفوں میں تو نہیں لے آئے۔تصور کیجیے بطن میں پلتے ننھے وجود کا جسے ماں چھو نہیں سکتی مگر ہر لمحہ اس کی حرکت سے باخبر رہتی ہے۔
ایک اصطلاح ہوتی ہے سہولت کار اور اسی کے وزن پر دوسری اصطلاح ہے مددگار۔یہ جو یہود و ہنود کی سازشوں کا جال ہے اور ان کے کارندے ہیں جن کا سنا ہے کہ کوئی مذہب نہیں ہوتا، جب میرے بچوں اور اساتذہ کی جان لینے آتے ہیں تو ان کی رہائش ، اسلحہ بارود کی فراہمی ، کھانا پینا اور دیگر ضروریات کون پوری کرتا ہے ؟ مدد ہمیشہ اندر سے ہی فراہم کی جاتی ہے۔ آرمی پبلک سکول سانحہ میں آپ نے اندر کے سہولتکار کو خاموشی سے پھانسی چڑھا دیا۔بھگوڑے  کا کورٹ مارشل ہوگیا۔ قوم کے سامنے یہ حقائق نہیں لائیں گے مگر سوچیے کہ بات تو نکل گئی۔گُڈ بیڈ کے چکر سے نکلے ہیں تو اب مسلکی،سیاسی اور ذاتی وابستگیوں سے بھی علیحدگی اختیار کرلیجیے۔ مصلحت اور بہادری کے نام پر میرے بچوں کا خون ارزاں مت کیجیے۔دہائیوں پر محیط مضبوط نیٹ ورکس کو توڑنا اور جڑ سے اکھاڑنا واقعی وقت مانگتا ہے۔ ایک رات یا چند مہینوں میں نرسریوں سے سلیپنگ سیلز تک پہنچنا ممکن نہیں۔ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگ طویل ہے اور راستہ کٹھن مگر قوم کو طفل تسلیاں دے کر مزید بہلانا کسی طور مناسب نہیں۔
ہر سانحے پر فرداً فرداً شدید مذمتی بیانات ، قومی پرچم سرنگوں ، دس روزہ سوگ کا اعلان ، ایک عدد آل پارٹیز کانفرنس ، بیس نکاتی ایکشن پلان کی منظوری ، فوجی عدالتیں ، کمیٹیاں ، تحقیقاتی ٹیمیں ، ہسپتالوں کے دورے ، زخمیوں کی عیادت ، شہداء کے لواحقین کو امدادی چیک ، جذباتی گانا اوربرسی پر مزید سنگیت کے ساتھ ایک عدد لہو رنگ سرورق والی کتاب کے علاوہ بہادر قوم کی عظیم قربانی کا پہاڑا پڑھنے والوں کے دامن پر اپنے ہی طلباء اور اساتذہ کے خون کے چھینٹے نظر انداز کیےجاؤ کہ حُب الوطن ہونے کیلیے آج کل اہم شرط یہی ہے ۔ مائیں ان کے گریبان پکڑیں تو پاگل،باپ بولیں تو غدار۔ کہانی ختم اور قومی سانحے کی اگلی قسط
کےمنتظر ہم عوام ۔
جاتے جاتے ایک آخری گزارش کہ ریاست کو ماں جیسا کہنا بند کیجے کیونکہ ہمارے معاشرے میں "ماں کی ۔۔۔" سن کر خالی جگہ کے لئے جو پہلا لفظ خیال میں آتا ہے وہ خدمت نہیں ہے۔

جمعہ، 22 جنوری، 2016

فاتح

"رابعہ دروازہ اچھی طرح بند کرلو۔میں شام تک لوٹوں گی۔ ہانڈی چڑھا لینا اور پوچھ کر دروازہ کھولنا۔" رقیہ نے چادر اوڑھتے بیٹی کو نصیحتیں کیں اور باہر نکل گئی۔ رابعہ نے بڑھ کر چٹخنی چڑھائی اور اندر پہنچ کر بیڈ کے نیچے سے موبائل فون نکال کر کوئی نمبر ملایا۔"میں بس دس منٹ میں نکل رہی ہوں۔تم جیولر کی دکان پر پہنچو۔"
گھنٹے میں رابعہ واپس گھر پہنچ چکی تھی۔ اوسان بحال ہوئے تو ہانڈی روٹی کا سوچتی باورچی خانے میں آئی ہی تھی کہ برقی گھنٹی نے شور مچادیا۔"اس وقت کون آگیا۔۔۔" خودکلامی کرتے بلند آواز میں دریافت کیا "کون۔۔۔؟"
بھاری بھرکم آواز تھی "میں احسن۔۔امی نے کھیر بھجوائی ہے۔"
رابعہ نے دوپٹہ درست کرتے دروازہ کھولا تو شرماتے ہوئے سلام کرتے کھیر کا برتن پکڑلیا۔"امی گھر پر نہیں ہیں آپ سامنے خالہ کے گھر انتظار کرلیجیے۔"
"ارے۔۔۔ممانی نہیں ہیں تو کیا ہمیں اندر آنے کی بھی اجازت نہیں ؟ منگیتر ہونے کا بھی مارجن نہیں ؟"
رابعہ نے مسکراتے ہوئے خالہ کے دروازے کی جانب اشارہ کیا اور داخلی دروازہ بند کرلیا۔
احسن اپنی ماموں زاد کی اسی شرم و لحاظ پر فدا ہوتے ماں کو مجبور کرکے منگنی کروا چکا تھا۔اب بھی اپنی پسند پر نازاں ممانی کی بہن کی جانب بیٹھا خاطر مدارت کروا رہا تھا۔
آج رابعہ کی پھپھو شادی کی تاریخ لینے آئی تھیں اور خاندانی رواج کے مطابق سارا گھر رشتے داروں سے بھرا پڑا تھا۔رابعہ نے اکلوتی سہیلی شرمین کو ہاتھ بٹانے کیلیے بلوایا تھا۔شام تک گہما گہمی کچھ ماند پڑی تو برتن سمیٹتی شرمین کو رابعہ نے باورچی خانے آنے کا اشارہ کیا۔مومی کاغذ میں لپٹی بھاری سی چیز اس کو تھماتے بولی "یہ بیگ میں رکھ لو ۔ دونوں کا  کیا کرنا ہے تم جانتی ہو۔" شرمین کی آنکھوں میں چمک سی دوڑ گئی۔
رات کو رقیہ نے سرہانے تلے ہاتھ پھیرا  اور مطلوبہ شے نہ ملنے پر گھر میں ہنگامہ کھڑا ہوچکا تھا۔۔۔۔ "میں کہتی ہوں جس بےغیرت نے یہ حرکت کی ہے اللہ اسے دنیا میں ہی دکھائے۔غضب خدا کا ایسے چور رشتہ داروں سے اللہ بچائے۔بیٹی کی تاریخ پکی کرنے آئے اورسامان سمیٹ کر رفو چکر۔کیڑے پڑیں،اپنی اولاد سے بھرے۔۔۔۔۔۔"
بددعاؤں اور کوسنوں کا یہ سلسلہ شادی کی خریداری اور ہنگاموں میں دب گیا تھا۔اگرچہ سلگتی چنگاری ہوا مِلنے پر دوبارہ سے بھڑک اٹھتی۔
شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی تھی۔خاندان کی پہلی شادی تھی اور یوں بھی بقول خالہ زرینہ باہر کی کمائی میں برکت تھی۔ احسن کو شرماتی لجاتی رابعہ معصومیت کا پیکر محسوس ہورہی تھی
صبح جب شرمین دلہن کے گھر سے ناشتہ لے کر آئی تو خوشبوؤں میں بسا احسن کسی فاتح کی مانند کمرے سے نکلتا فون ملا رہا تھا۔ شرمین سلام کرتی اندر چلی گئی۔
"ھیلو ! ہاں جہانزیب کیا بنا یار؟ جان چھڑواؤ اس بازارو عورت سے۔ایسی لڑکیاں شادی مٹیریل نہیں ہوتیں اور اس کا احساس رابعہ کو بیوی بنا کر ہوگیا ہے۔۔۔۔ہمممم۔۔۔ بلے وئی۔ اسے بتا دو کہ ٹائم پاس تھی اور میرے والدین شریف لڑکی کو بہو بنا کر لے آئے ہیں۔زیادہ شور کرے تو کہہ دینا کہ تصاویر اس کے بھائی کو بھجوا دیں گے۔اچھا چل شام کو ولیمےمیں آرہا ہے نا؟ "
رابعہ نے شرمین کو دیکھتے ہی سونے کے کنگن کی جانب اشارہ کیا۔۔"یہ منہ دکھائی ملی ہے۔ شکر ہے اچھے وقت میں اُس کنگال سے جان چھڑوا لی۔"
شرمین نے آہستہ بولنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی کرتے بولی " بہت مشکل سے کمینے انسان کو راضی کیا ہےاس رقم میں۔جا مر رہا ہے پرسوں ۔لگ گیا ہے ویزا ۔اور سنا ہے وہاں خالہ کی بیٹی سے ہی نسبت طے ہوگئی ہے۔"
رابعہ نے گہری سانس لی " جانتی تو ہو کہ  اماں کی انگوٹھی بیچ کر پیسے اس کے منہ پر مارے اور تصاویر واپس لیں تو ہم سمجھے تھے کہ جان چھوٹ گئی۔مگر کمال بےغیرت نکلا۔اماں کا موبائل فون جب تمہیں بیچنے کو دیا تو کیسے خود کو مطمئن کیا۔بس کچھ مت پوچھو۔خود تو ایسا گھٹیا سیکنڈ ھینڈ موبائل نہ چھوڑا،واپس منگوا لیا۔"
شرمین نےاس کا دپٹہ درست کرتے کہا "بھول جاؤ ان باتوں کو۔احسن بھائی بہت شریف انسان ہیں۔پھر کچھ عرصہ میں تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے۔جان چھوٹے گی سسرال کے جنجال سے۔فاتح تو میری سہیلی ہی رہی نا۔"
دونوں ایک دوسرے کو گلے لگاتے کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔