جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

زلزلے کی پاکستانی وجوہات

آپ کا شکریہ کہ مصنف کے طور پر ایک خاتون کا نام دیکھ کر اس صفحے تک پہنچ گئے۔۔۔اور معذرت خواہ ہوں کہ تیس سالہ پرانا واقعہ بے وجہ دہرانے کی گستاخی کرنے جا رہی ہوں ۔
٢٦ اکتوبر ٢۰١٥ء کی دوپہر بدخشاں سے چلی زلزلے کی لہر پاکستان کو ہلا گئی اور اس سے زیادہ سوشل میڈیا ہِل گیا۔

١ : پراؤڈ پٹاخہ ایٹ بیچی بَگ
"زلزلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
جونہی ملازمہ نے جاگرزمیں تسمے پروتے زمین پر کانپتے یہ آواز لگائی میں نے تو جھٹ سمارٹ فون اٹھایا جھولتی تھرکتی wind chime کی وڈیو بنائی اور جھولتے پنکھے کو ٹیگ کرکے 
ھیش ٹیگ #زلزلہ کا آغاز کردیا۔یوں پاکستان میں اس تاریخی زلزلےکو سوشل میڈیا پر متعارف کروانے کا سہرا میرے سر ہے۔پھر جو اس کی شدت اور ہلاکتوں بارے ہر مصدقہ/غیر مصدقہ خبر کو عوام تک پہنچایا وہ تو ایک الگ ہی محنت و عظمت بھری داستان ہے۔
آج جِم جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ممی کو آواز دی کہ اچھی سی کافی بنوا کر بھیجیں۔بہت کام تھے۔زلزلے کی وجوہات اور اثرات بارے سیر حاصل بحث کرنی تھی اور حکومتی اقدامات کو دل کھول کر رگیدنے کا موقع تو قدرت نے فراہم کر ہی دیا تھا۔پھر ہمارے ویر جوانوں کی جفاکشی کو ہائی لائٹ کرنا صرف باجوہ صاحب کے ناتواں کندھوں پر تو ڈالا نہیں جا سکتا۔۔۔کچھ کام ہمیں بھی اپنے ذمہ لینے چاہییں۔
مجھے Earthquake بارے پڑھےکافی سال ہوگئے۔مگر یار دوست مل کر کچھ نہ کچھ حصہ ڈال کر ٹرینڈ لسٹ میں دھوم تو مچا ہی لیں گے ۔۔۔فلڈز وغیرہ کے دنوں میں بھی توسب نے سوشل میڈیا پر اتنی محنت کی تھی۔۔آج بھی اپریل ٢۰۰٥ء میں نیپال میں آنے والے زلزلے کی تصاویر نکال کر تھوڑی بہت جھاڑ پھونک کرکے اچھا خاصا کراؤڈ اکٹھا کیا جاسکتا تھا۔اور کوئی نیوز چینل اس پوسٹ کو "ایکسکلوزو" واٹر مارک کے ساتھ دِکھا دے تو بلے بلے ۔
ویسے تو Numerology کے کچھ اعداد سے کھیل کر بھی اس زلزلے کو ثابت کرنے کی کوشش کردی ہے۔شہرت تو ملے گی ہی ، فالوورز الگ۔۔۔۔

٢: استغفرللہ ایٹ کلیم اللہ

زلزلہ کیوں آتا ہے؟
یہ سوال سوشل میڈیا پر بیٹھےکاہل و جاہل کرتے ہیں۔ مجھے تو پتنگے لگ گئے ان نامرادوں کی باتیں پڑھ کر ۔ یعنی کہ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں اور کہتے ہیں زمینی پلیٹوں کا ٹکراؤ ہے۔
میاں جب پورا ملک سود پر چلاؤ گے، فحاشی عام ہوگی۔۔۔ عورتیں ٹخنوں سے پانچ اِنچ اونچےتنگ پاجامے زیب تن کرکے مجھ سے متقی کا وضو خطا کروائیں گی ، جہوریت جیسا کفر کا نظام رائج کرکے چور لٹیروں کو برسرِ اقتدار لاؤ گے تو اللہ کا عذاب ہی نازل ہوگا نا۔ اور مزید یہ کہ لغو گوئی۔۔استغفرللہ۔۔ایسی گندی گندی ذومعنی گفتگو ہوتی ہے ٹائم لائن پر۔۔عورتوں کی تو آنکھ کا پانی مر چکا۔۔۔عورت کو برسرِ اقتدار لا کر اللہ سے کھلی جنگ کرچکا ہے یہ ملک۔۔۔
بےحیائی کی مرتکب یہ عورتیں ہوتی ہیں اور عذاب پورے ملک پر نازل ہوتا ہے۔ظاہر ہے جب اپنی عورتوں کو چار دیواری سے نکالیں گے تو بھگتیں پھر۔۔۔زنا کے اڈے ہیں کہ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔انہی عورتوں کا چلایا کاروبار ہے۔۔یہی قصور وار
میں نے تو لگایا پھر فون اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو کہ آجاؤ میدان میں۔۔زلزلےبارے قرآنی احکام لگاؤ اور بتاؤ اس جاہل قوم کو کہ فالٹ لائن نامی کوئی شے نہیں ہوتی بلکہ قوم کی عورتوں کا "فالٹ" ہے ۔اور تاکید کی کہ جو شخص اس سے اختلاف کرے یا کسی قسم کی کوئی سائنسی دلیل لانے کی کوشش کرے فوراً سے پہلے کافر قرار دے کر ایسا زدوکوب کرو کہ پبلک میں کلمہ پڑھ کر گواہی دے۔ہمیں ثواب کا ثواب اور وہ فاسق سبق الگ سیکھے گا ۔

٣ : سویٹ سوبر ایٹ براؤنی بَبّر

ٹائم لائن پر بکھرے علم کے موتی بیس منٹ سمیٹنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ زلزلے بارے میری معلومات کا کوزہ بھر چکا ہے۔آٹھ دس اچھے نامور لوگوں کو آرٹی کیا۔۔ایک دو نیوز چینلز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور کچھ صحافیوں کی گفتگو کا بغور جائزہ لے کر محتاط طریقے سے تمام معلومات کو ری۔سائیکل کرکے پوسٹ کرنا شروع کردیا۔۔۔۔ اتنے فیورٹس،اتنے کمنٹس۔۔میں حیران پریشان۔۔
پھر یاد آیا کہ آج صبح ہی اپنی ڈی۔پی بدلی تھی۔۔اتنے کوئی بےوقوف لوگ ہیں نا۔۔یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ تصویر ایک نئی پاپ سٹار کی ہے جس نے ابھی کوک اسٹوڈیو میں گایا نہیں ،اسی لیے زیادہ مقبول نہیں ہو پائی۔۔میں نے تو شکر کیا۔۔۔ایک ہی دن میں پچیس فالوورز مل جانا کوئی معمولی بات تو نہیں تھی۔
اب دو چار درد بھرے اشعار کاپی پیسٹ کرلوں پھر زلزلہ متاثرین کی امداد کیلیے ایک آدھ تھریڈ لکھنے سے کام پورا۔

٤ : انجینئررومیو ایٹ ڈسکو ڈیوا

تین سال قبل ڈپلومہ مکمل کرکے مناسب نوکری ملی تو سب سے پہلا کام گھر کے باہر نمبر پلیٹ لگوائی جس پر جلی حروف میں "انجینئر" لکھا دیکھ کر آس پڑوس کو میری پھپھو کپتی سے زیادہ آگ لگی۔
چھبیس اکتوبر کو زلزلہ آیا تو مجھ پر فرض تھا کہ سوشل میڈیا کا درست استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زلزلے کے حقائق بارے آگاہ کروں۔۔۔ پہلے تو بھلا ہو اس گوگل سرچ کا، تیس منٹ کی محنت میں دو اردو آرٹیکلز اور ایک سادہ انگریزی کا مکالہ زلزلے پر تلاش کیا۔بک مارک لگایا اور اچھے سے سب سمجھ کر دھیرے دھیرے ساری معلومات پوسٹ کرنا شروع کیں۔۔مگر مجال ہے جو دو تین لوگوں کے علاوہ کسی نے توجہ دی ہو۔۔۔
بھاڑ میں جائے ایسا علم۔۔اس قوم نے کبھی علم کی قدر نہیں کی۔یہاں فساد پھیلانے والا ہی اہمیت بٹورتا ہے۔۔بس پھر ایک ہی وقت میں دو لوگوں سے پنگا لیا۔۔۔ استغفرللہ ایٹ کلیم اللہ جانے خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔دھجیاں اڑا ڈالیں اس کے سطحی مطالعہ کی۔۔اس دوران ایک بندہ  آیا میری طرف داری کرنے۔۔۔ اس کے لبرلزم بلکہ سیکولرازم کی بھی ٹِکا کر چٹنی بنائی۔۔دو چار گالیاں لکھیں اور جب کام اچھے سے "پَخ" گیا تو سب کی توجہ خود پر پا کر روح کو راحت اور دل کو چین ملا۔۔میں تو نکل آیا آرام سےڈی۔ایم کی جانب۔۔۔۔۔۔

٥ : پخیرراغلے ایٹ آزاد سوچ

زلزلے کی خبر پڑھتے ہی آنسو رواں ہوگئے۔مانا کہ میرا آبائی علاقہ فالٹ لائن پر واقع ہے مگر وفاقی حکومت اور ٢۰۰٥ء کے زلزلے میں ملنے والی امداد ہڑپ کرجانے والی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر اکھاڑ پچھاڑ کا یہ موقع مجھے اللہ نے دیا تھا ۔۔۔۔ پراؤڈ پٹاخہ کی پوسٹ کردہ تصاویر پر دو روتے ایموجی اور اپنے صوبے کے عوام کی خستہ حالی پر ایک آدھ جملہ جلتی پر تیل کا کام کرنے کو بتیہرا تھا۔
کچھ کام اس ڈسکو ڈیوا اور استغفرللہ  کے حوالے سے بھی کرڈالا۔۔۔ایک کی گوگل معلومات کو رگیدا اور دوسرے کو یاد دہانی کروائی کہ فحاشی اور زنا تو ان معاشروں میں زیادہ ہے جہاں سے زلزلہ متاثرین کے نام پر اربوں کی امداد کھسوٹی جاتی ہے۔


٦ : فیک اکاؤنٹ ایٹ منظم اداراہ

جماعت چہارم تھی یا شاید سوئم۔۔۔۔ نیلا ، لال ، پیلا رنگ اور ایک عدد سیب۔۔۔۔ زمین کی ساخت سمجھانے اور زلزلے کی بنیادی وجوہات بارے ایسا خوبصورت بیانیہ شاید بی۔ایڈ کی وہ طالبات بھی تیار نہ کر پائیں جن کو Viva میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر ایک لیکچر دینا لازمی ہوتا ہے۔ سلام ہے ایس محنتی معلمہ کو۔
زلزلے سمندر کی گہرائی سے لے کر چاند،مریخ تک پر آتے ہیں۔ سمجھ یہ نہیں آتی کہ وہاں کون سی عورتیں ٹخنے اور سر ننگے کرتی ہیں۔۔ اور کونسا کفر کا نظام سود پر پل رہا ہے۔۔۔
یہاں تین روز سے کُڑھ کُڑھ کر برا حال ہے کہ جونہی کوئی دلیل یا سوال کیا استغفرللہ برگیڈ نے فتویٰ لگا کر دائرہء اسلام سے "ایک بار پھر" خارج کردینا ہے۔
ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ فلاں فلاں قوم صبح کو اوندھے منہ پڑی تھی۔۔۔یہ بھول جاتے ہیں کہ قومِ لوط والے اوصاف تو قصور شہر اور پشاور بچہ جیل میں بھی دہرائے گئے تو زلزلہ صرف ان جگہوں پر ہی کیوں نہ آگیا۔۔۔یا پھر مسخ شدہ لاشوں نے کیوں نہ کچھ بگاڑ دیا۔۔۔
ہم یہ بھول گئے کہ ہمارا پہلا سبق "اقراء" ہے۔۔۔ پڑھنا۔۔تحقیق۔۔۔جستجو۔۔اور غور کرنے کا حکم ہے۔۔۔۔
یہاں تو ریکٹر اسکیل اور مومنٹ میگنیٹیوڈ سکیل کا فرق تک بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
پاکستان کا دو تہائی علاقہ فالٹ لائن پر ہے۔۔۔اس کے پیچھے آبادی ، غربت،وسائل اور دیگر معاملات بھی کارفرما ہیں۔
صرف بلڈنگ کوڈز پر ایک پوسٹ کرکے خوب گالیاں کھائیں۔کسی نے نہیں سوچا کہ زلزلہ اگر اللہ کا عذاب ہے تو گھروں کا گرنا ناقص تعمیرات کا نتیجہ ہے۔انسانی غلطی یا کوتاہی۔۔ یا پھر غربت جیسی مجبوری

٧ : کالم نگار ایٹ دانشوراینکر

شہرِ اقتدار میں زلزلہ آیا اور میری تو باچھیں کھل گئیں جناب۔۔۔۔
بھلا ہو اس راہگیر کا جس نے میٹرو بس روٹ کا جھولا فلم بند کرلیا۔۔۔ورنہ قوم کو اس کرپٹ ٹولے کی اربوں کی کرپشن کا ثبوت دکھانے میں دیر ہوجاتی۔۔۔ اب میں کسی تعمیراتی ماہر یا انجینئر کو اپنے شو میں بلواتا تو خاک ریٹنگ ملتی۔۔لہذا اپوزیشن میں سب سے زیادہ چلانے والا بدزبان تلاش کیا کہ اس سے بہتر ماہرانہ رائے کون دے سکتا تھا۔
ساتھ میں پراؤڈ پٹاخہ کی پوسٹ کردہ زلزلے کی تصاویر چلا دیں۔
اب میری بلا سے زلزلہ گناہوں کے باعث آیا یا "براعظموں کے کونے ٹکرانے سے" ۔۔۔ بہرحال پروڈیوسر سے کہہ دیا ہے کہ اس "قومی طلاق" ، لودھراں کے ضمنی انتخاب اور بلدیاتی الیکشنز کی گہما گہمی سے قبل دور افتادہ ایک آدھ گاؤں میں جانے کا بندوبست کرے تاکہ عوام کو اس حکومت کی نا اہلی دکھائی جا سکے۔اللہ کرے کسی اچھے ہوٹل میں قیام ہو تو مزہ آجائے گا۔موسم یوں بھی بے ایمان ہے اور مفت کی تو ہمیں حلال ہے۔

اتوار، 25 اکتوبر، 2015

جیدا نامہ

اگر پاکستان کا کوئی شہری اردو اخبار کی جان نکالنا چاہتا ہے تو وہ اس میں سے عامل بابوں اور حکیم حضرات کےساتھ موٹاپےسے چھٹکارہ اور ضرورتِ رشتہ کے اشتہارات نکال دے۔ یہ اخبار چند سیکنڈ میں بے روح ہوجائیں گے۔اور اگر کوئی شخص اُس اخبار کو بے ادب کرنا چاہتا ہے جس میں خاکسار کالم نویسی کرتا ہو تو۔۔۔۔ کالم نگاری کی دنیا ویران ہوجائے گی جب اس میں سیاست کو سمجھانے کے لیے سیاحت،ادب،سائنس،شاعری اور صوفی ازم کا تڑکا لگانے والا موجود نہ ہوگا۔
کل شام بارش کا مزہ لوٹنے رین کوٹ پہن کرگاڑی میں باہر نکلا تو گلی کی نکڑ پر کھڑا پکوڑے بیچنے والا مجھے پاؤ بھر بینگن اور ہری مرچ کے پکوڑے اخبار کے اس تراشے پر رکھ کر تھما گیا جہاں میرا کالم چھپا تھا۔آپ اس شخص کی عقیدت کا اندازہ لگایے۔آپ اس کے حلال رزق میں برکت کا تصور کیجیے۔آپ سوچیے کہ اس ملک میں ایک پکوڑے والا خاکسار کے کالم کو اپنے رزق کمانے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔آنکھیں بھیگ گئیں اور چشمِ تصور سے ان بزرگ کو سلامِ محبت پیش کیا جنہوں نے بچپن میں میری گردن کا پھوڑا اپنے انگوٹھے سے پھوڑ ڈالا تھا۔ورنہ میں تو مجذوب بن کر آخرت سنوار بیٹھتا مگر آپ کو گھر بیٹھے دنیا جہاں کی سیرکون کرواتا؟ میٹا فزکس کی گتھیاں کون سلجھا پاتا اور ایک ہی کالم میں سکندرِ اعظم کے ١٧ لاکھ مربع میل کے ساتھ فاروق اعظمؓ کے ٢٢ لاکھ مربع میل کی فتح کا موازنہ کون فطین کر پاتا۔۔۔۔
اسی قوم کا غم پالتےنہایت کم عمری میں خون کی شکر بڑھا بیٹھا۔مٹھاس تو میرے لہو میں شامل ہے۔آپ کبھی مجھے غصے میں کرسیاں اچھالتے،پستول تانتے نہیں دیکھیں گے۔
اسی پھوڑے کا فیض ہے کہ مجھے ہر بات جان لینے کی جستو بچپن سے ہی ہے۔گھر کی لائبریری میں پڑی ہرے سروق والی واحد ضخیم کتاب میری پسندیدہ رہی۔آپ اس کتاب کو پڑھیں۔یہ دین و دنیا سنوار کر آپ کوکسی اور ہی جہان میں لے جائے گی۔آپ اس کے ان ابواب کا مطالعہ کیجیے جو شبِ زفاف سے متعلق ہیں۔۔حقوق و فرائض کی ایسی ضخامت،تفسیر و تفصیل آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔یہی وہ باب ہے جہاں میں نے سعادت حسن منٹو جیسے فحش نگار کی "اوپر،نیچے اور درمیان" چھپا کر پڑھی۔گھر میں بہن۔ بیٹوں کی موجودگی میں اس شخص کی تصانیف سرِعام پڑھنا کوئی شریف النفس انسان تصور نہیں کر سکتا۔
منٹو ایک "فحش نگار اور بے حیاء " لکھاری ہے۔ اس بات کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب میں نے اس کی "باردہ شمالی"پڑھی۔آپ اس کے استعارے دیکھیے،اس کی چالاکی اور ہوشیاری سمجھیے۔میں ایک معصوم بچہ ہوتے "گوگلز،بش شرٹ،لائبریری" جیسے استعاروں کی چال سمجھ گیا تو آج کا نوجوان یہ سب پڑھ کر کیوں نہ بہکے گا۔
آپ علم کی تڑپ اور جان لینے کی جستجو میں میری تکلیف کا اندازہ کیجیے کہ ٹوائلٹ سیٹس جیسی سہولت کی عدم دستیابی کے باوجود "الٹی شلوار" میں نے قدمچے پر بیٹھ کر پڑھی۔۔۔۔جس روز سٹور روم میں لحاف کی اوٹ میں چھپ کر "کھول دو" پڑھی تو میں آب آب ہوگیا۔
کالج دور میں ایک بولڈ کلاس فیلو خاکسار سےبہت متاثر تھی اسی لیے اچھی گپ شپ تھی۔تحائف کا لین دین بھی ہوجاتا۔ "ٹھنڈا گوشت" کا تحفہ میں نے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر پڑھا۔۔۔۔۔آنکھیں پھوٹ گئیں ایسی بے شرمی اور غلاظت پڑھتے۔جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو اپنے گھر کی طاقچوں میں منٹونامہ سجاتے ہیں۔بہن اور بیٹی کو ایسی تحاریر پڑھانا کسی حیاءدار گھرانے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
لوگ مجھے کہتے ہیں کہ منٹو نے بہت کچھ اچھا لکھا۔مگر میرے دل کا گھڑا بھر چکا ہے اس کی درج بالا تحاریر پڑھنے کے بعد میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ "موج دین" ہو یا "تیقن" یا ایسی کوئی بھی تحریر منٹو جیسا شرابی،ضدی اور بےحس انسان کچھ اچھا لکھ ہی نہیں سکتا۔آپ بتایےاقبال اور جناح کے بنائے اس ارضِ پاک میں طوائف اور جنسیات جیسے معاملات کیسے پنپ سکتے ہیں۔۔۔ معاشرے میں کیسی ہی گندگی ہو مگر اسے اچھالنے کا فن سراہنے کے لائق نہیں ہوسکتا۔
میں نے آخری کوشش میں سرمد کھوسٹ کی "منٹو" بھی دیکھ ڈالی۔۔ دل مکدر ہوگیا کہ جو اور جیسا میں نے پڑھا تھا وہ مناظر اسی طرح پکچرائز نہ کیے گئےجس طرح میرے ذہن کے پردے پر چلا کرتے تھے۔یہ سرمد کی مذموم چال ہے کہ لوگ ایک شرابی،ضدی اور بے حیاء افسانہ نگار سے عقیدت پال لیں۔
مانا کہ کوئی فلم شکتی کپور،گلشن گروور اور پریم چوپڑا کے بنا ادھوری ہے۔سیدھی بات ہے یہ ولن اگر ھیروئن کو اغواء نہیں کرے گا تو لوگ ھیرو کی عظمت کیسے سمجھیں گے۔۔۔یہ ولن پریش راول ہی تھا جس نے اجے دیوگن کو پاگل بنا کر "اک ایسی لڑکی تھی جسے میں پیار کرتا تھا" جیسے لازوال نغمے کا موقع فراہم کیا ورنہ "دل والے" جیسی فلم ڈبہ ثابت ہوتی۔۔
اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ اگر منٹو کی فحش نگاری کا راستہ بند نہ کیا جاتا تو سوچیے آج اس جیسے افسانہ نگار پر فلم بن سکتی تھی جو شراب نوشی کے باعث بیالیس سال میں ہی چل بسا ہو۔۔۔سرمد نے بہت نا انصافی کی ہے۔چوھدری صاحب نےہر وہ رسالہ بند کروایا جس نے منٹو کا فحش نامہ چھاپنے کا گناہ کیا۔۔۔وہ پڑھ کرہی فیصلہ کرتے ہوں گے نا کہ اس کا مواد اقبال کے شاہین پڑھ کر گمراہ ہوجائیں گے۔۔۔یتیموں کی کفالت کرنے والے نے کیا برا کیا جو منٹو پر زندگی تنگ کی،کوئی گناہ نہیں اگر ایک کچرہ نگار کو راہِ راست پر لانے کےلیے اس کی روزی روٹی پر لات ماری جائے۔۔اب منٹو کبڑا ہوتا تو کُب نکل بھی جاتا۔وہ بےحس تو جگر پانی اور پھیپھڑے دھواں کرکے مرگیا اور آپ یقین مانیے آج بھی اسے ھیرو سمجھنے والے منٹو کا کوئی افسانہ اپنی بہن کے ہاتھ میں دیکھ کر زمین میں گڑ جاتے ہیں۔چوھدری کو ولن نہیں ثمرن کے باپ کا کردار ہی دےدیاجاتا جو آخری سین میں زندگی جی لینے کا سکھ دیتا ہے۔۔۔۔آپ تصور کیجیے کہ اگر منٹو کے تمام افسانے چھپ جاتےتو آج اقبال کے پاکستان میں لوگ خودی بیچنے کی بجائے غریبی میں نام پیدا کرنے کا ہنر نہ سیکھ پاتے۔

             جسم نہ بیچ ، غریبی میں بھوک سے مرجا ؎

ہفتہ، 17 اکتوبر، 2015

نلکا ، بانس اور جِن

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی بندے نے ایک خاص چِلے میں جن قابو کرلیا۔یہ  آگ کی ایسی ترکیب سے تخلیق کیا گیا تھا جس کو ایک پل چین نہیں تھا۔۔۔۔۔"مجھےکام بتاؤ،میں کیا کروں" والی صفت تھی۔۔۔
پہلے پہل تو جن کے مالک کو بہت سہولت کا احساس ہوا کہ اِدھر کوئی کام کہا اور اُدھر پلک جھپکتے "ہوگیا" ۔۔۔۔۔۔ مگر آخر کتنے کام ہیں جو ایک عام انسان کی روز مرہ زندگی میں ہوسکتے ہیں؟ جبکہ جِن بھائی صاحب کو تو کام کی لگن تھی۔تنگ آکر مالک نے اسے نلکا گیڑ گیڑ کر پانی فصلوں کو لگانے کا کام سونپ دیا۔۔ ایک روز فصل بھی اسی سے کٹوائی گئی۔جِن کی مصروفیت تلاش کرنا مشکل ہوچلا تھا۔مالک کو ترکیب سوجھی اور حکم دیا کہ ایک بانس گھر کے آنگن کے بیچوں بیچ گاڑے اور اس پر چڑھتا اترتا رہے۔۔۔لیجیے جناب ! اچھا خاصا آگ سے بنا جِن حضرتِ انسان کی عقل سے مات کھا کر اسی کے آباء یعنی بندروں والی خصلت پر معمور کردیا گیا۔ اس دوران
 جب کوئی کام کروانا ہوتا تو بانس بریک لے لی جاتی۔
دادا جی سے سنا کرتے تھے کہ اکثر کسی جِن کے ساتھ ایک "چھلیڈا" بھی ہوتا ہے۔جو کبھی کتا بن جاتا ہے،کبھی بکری اور بعض اوقات سانپ بن کر پھنکارتا ہے۔بہروپیا ہی سمجھیے۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
سنا ہے جنات میں ھڈی،رگ،پٹھے اور جوڑ وغیرہ نہیں ہوتے۔۔۔بس سراپا آگ۔۔سوال یہ ہے کہ کیا ان کا دماغ ہوتا ہے ؟ اگر نہیں ہوتا تو کیا وہ بھی پاکستانیوں کی طرح بنا سوچ کے ہی اولاد پیدا کیے جاتے ہیں ؟ دماغ ہے تو مخلوقات سے افضل کاہے نہیں ؟ اور اگر دماغ نہیں ہوتا تو پاکستانی شہریت کے حامل "شریر جِن" سبق پڑھنے کیونکر آجاتے ہیں ؟ اور پھر جو دماغ موجود ہے تو سوچ بھی ہے۔۔سوچ ہے تو۔۔۔۔۔۔ خیریہ تو سوالات کا ختم نہ ہونے والا جال ہے ۔۔۔۔
ویسے سنا ہے کہ جنات شدید قسم کے حسن پرست اور عاشق مزاج ہوا کرتے ہیں۔ یونہی تو خواتین کو خوشبو لگا کر مغرب کے وقت درختوں تلے جانے سے نہیں روکا جاتا نا۔
۔۔۔روایات کے مطابق گوبر اور ہڈیاں ان کی خوراک ہیں۔۔۔۔مگر ہمارے ہاں کے بزرگوں نے مٹھائیوں کے کاروبار میں ترقی کا سہرا بھی جنات ہی کی رغبت کو پہنا رکھا ہے۔۔۔اس شاپنگ کے لیے کرنسی نوٹ کہاں چھپتےہیں کچھ علم نہیں۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کوئی بھی جگہ زیادہ عرصہ خالی رہے تو وہاں جنات آباد کاری کرلیتے ہیں۔اور جو بھی خوبصورت و طاقت ور شے انہیں بھاتی ہے بس قبضہ جما کربغیر رجسٹریشن ہی اسے اپنی ملکیت تصور کرلیتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے ایسے ایسے "ھیرے" پیدا کیے ہیں کہ جو میتھین گیس کا مجموعہ قرار دیتے آج دن تک جنات پر قابو پا کر توانائی کے شعبےمیں تھرتھلی مچا دینے کا خواب دیکھا کرتے ہیں۔
بہرحال بات چلی تھی اس بندے کی جس نے خاص عمل کے ذریعے ایک بےچین ھڈی والاجِن قابو کرلیا۔۔۔۔۔آج کے زمانے میں نظر دوڑائی جائے تو ایسے خوش نصیب لوگ تو نہیں لیکن عناصر ضرور دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔بدقسمتی مگر ان کی یہ رہی ہے کہ کچھ مدت بعد ان کے جمورے سمجھ و شعور سے کام لیتے بانس سے اتر کر معمول کے میدانِ زندگی و سیاست کی جانب رجوع کرلیتے ہیں ،اب کی بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ قابو کیا جانے والا آتشی دماغ نما شے کا مالک اپنی ذات سے عشق میں مبتلا ہر تخریبی صلاحیت سے مالا مال ہے۔۔۔۔ ریاستی املاک تہس نہس کروا کر ملک میں ہیجان پیدا کروایے،نعرے لگوایے،نئے خواب سستے داموں بیچیے، مالک سے زیادہ طاقتور کو "کٹ ٹو سائز" کرنا ہو تو پگڑیاں بیچ بازار اچھال دے ، ہجوم اکٹھا کرنا ہو یا پھرمیڈیا و عوام کی توجہ اندرونی و بین الاقوامی معاملات سے ہٹانی ہو۔۔۔۔۔۔۔ نلکا "گیڑتا" جائے گا۔نفرت کی فصل کو تعصب اور جہالت کے پانی سے سیراب کرتا جائے گا۔۔۔ہاں بانس مگر آنگن کے عین وسط میں مستقل نہیں گاڑا گیا۔مرکز بدلتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ کبھی شہرِاقتدار،کبھی ملک کا دھڑکتا دل۔۔۔۔

بیل آنکھوں پر بندھی پٹی میں سارا دن ایک دائرے میں گھومتا ہے فقط یہ سوچتے کہ آگے بڑھ رہا ہے مگر اُس کی اس خوش فہم حرکت سے فائدہ یہ ہے کہ کوہلو سے تیل اور رہٹ کا پانی لوگوں کے کام تو آتا ہے۔۔۔ اس جِن کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ نلکے اور بانس کی اس کسرت میں حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔بس پنجابی والا  لارا  لگا کر سب کو  آرے  لگایا ہوا ہے۔