جمعہ، 1 مئی، 2015

بندۂ مزدور کی اوقات

ہاتھ پاؤں بھی بتاتے ہیں کہ مزدور ہوں میں
اور ملبوس بھی کہتا  ہے کہ مجبور  ہوں میں


یہ ریلوے لائن کےکنارےآباد وہ کچی بستی تھی جسے جانے کتنی بار حکومت مسمارکرنےکانوٹس جاری کرواچکی تھی مگر بھلاہو ورک صاحب کا کہ ہر باراہل علاقہ کے بچوں اور خواتین کیساتھ عدالت سے "سٹےآرڈر" جاری کروا لاتےتھے۔
کچی پکی اور اِدھراُدھرسےاکٹھی کی گئی اینٹوں سےبنا ایک کمرہ اورکچاآنگن ۔۔۔حمیدہ خاتون اپنےاکلوتےبیٹےاورچاربیٹیوں کےساتھ یہیں آباد تھی۔اس کا شوہر چند برس قبل تیزگام تلے زندگی کی بازی ہارگیاتھا۔کہنےوالےتوخودکشی ہی بتاتےتھےمگرکون جانےکہ اولادکوجوان ہوتے دیکھ پینٹ کابرش کتنی بار لرزتاتھااورکتنی صبحیں وہ بغیر ناشتہ کیےزندگی کابوجھ ڈھونے،شام کےلیےروٹی کاایندھن کمانے گھرسے نکلاتھا۔ہرعید،ہڑتال،ہنگاموں کی نظر اس کی کتنی "دیہاڑیاں" خودکشی میں بسرہوئی تھیں۔
حمیدہ کوگھٹنوں اور گردوں کی شدید تکلیف تھی۔مگرریلوے کالونی میں صاحب لوگوں کےدوگھروں کی صفائی اور برتن دھونے کاکام مل گیاتھا۔دو بیٹیاں کسی فیکٹری میں تھیلےسیتی تھیں ،جبکہ تیسرےنمبروالی سب سے چھوٹی بہن کوتیار کرکے لاڈسےپیلی دیوار والےسکول بھیج دیتی کہ بہنوں کو بہت چاؤتھاگھرمیں کوئی توپڑھ لکھ کر"جہالت" سے نجات حاصل کرے۔مولوی صاحب کہتےتھےکہ علم کے بنا جانور اور انسان ایک برابر ہوتےہیں۔توبس اس ایک کمرےکےگھرمیں "ایک انسان" توہوناچاہیےنا۔
حمیدہ نے بیٹےکوموٹرمکینک کا کام سیکھنےبٹھا دیاتھا۔ابھی دس سال کاہی توتھاگڈو۔نام توشہریارتھامگراسے توخود یہ نام کبھی سکول میں بھی نہ ملاتھا۔زندگی کی چھکڑا ٹرین گھسیٹی جارہی تھی اور وقت نےاس چھکڑےکےآگےحمیدہ اوراس کےجگرگوشےہی جوت رکھےتھے۔
ماں نے چادرکھینچی اور گڈوکےبال سہلاتےاٹھایا۔"پترگڈو! اٹھا جابیٹا،دیر ہوگئی تو تیرا استاد ڈانٹےگا۔" گڈونے کروٹ لی اور ماں کویاد کروایاکہ آج یکم مئی ہے۔مگر ماں نے جب دل پر پتھر رکھ کر دوسری بار اٹھایاتو گڈو غصےمیں بولا "ماں پچھلےسال بھی استاد جی نےچھٹی کرلی تھی اورسارے بڑے لڑکےفلم دیکھنےچلےگئےتھے۔میں سارا دن بھوکا ورکشاپ بیٹھارہا،واپسی پر یادہے نا  کیسے پیدل چلتےسڑک پر بےہوش ہوگیاتھا؟ آج میں کام پر نہیں جاؤں گا۔بلکہ تو مجھےکسی اور ورکشاپ بٹھا دے،یہاں لڑکے اچھے نہیں ہیں۔" 
حمیدہ کو فکر یہ تھی کہ آج کی مزدوری استاد کاٹ لے گا۔چارو ناچار زبردستی گڈو کوناشتہ کروایا اور ورکشاپ روانہ کرکے اکیلی ہی کام پر روانہ ہوگئی کیونکہ  یومِ مئی پر  فیکٹری بھی بند تھی جہاں اس کی بیٹیاں کام کرتی تھیں۔
آج صاحب گھر پر تھے۔بیگم صاحبہ نے جلدی جلدی کام نبٹانے کا حکم دیاکیوں کہ   بچوں کیساتھ پکنک کا پروگرام تھا۔معمول سےپہلےگھرواپس لوٹی تو سوچا گڈوکےاستاد سے خود بات کرکےآئےکہ بڑے لڑکے اس کے راج دلارے کو تنگ کرتےہیں۔ورکشاپ پہنچی تو وہاں تالا تھا۔ماتھا ٹھنکا۔ ارد گرد سے دریافت کیاتوخبرہوئی کہ دکان سویرے ہی گھنٹے دو بعد بند کردی گئی تھی۔
حمیدہ نے رات تک گڈوکوتلاش کیا۔ ناکامی پر تھانے پہنچی اور واویلا مچاتی تھانیدار کورپورٹ درج کرنے کوکہا۔اس دوران ایک کیمرہ مین کیساتھ مائیک اٹھائے ایک میڈم داخل ہوئی ۔وہ یہاں کسی ملزم کا انٹرویو کرنے آئے تھی۔اس بیچ حمیدہ کا رونا پیٹنا سن کر بھاگی تھی۔۔"جی خاتون کیا مسئلہ ہے؟"  حمیدہ مائیک دیکھ کر گھبراگئی اور فوراً سسکیوں سے بتادیاکہ اکلوتا بیٹا نہیں مل رہا۔تھانیدار ایک لمحے کو الجھن زدہ چہرہ لیے گھورتا رہا اور پھر کیمرہ دیکھ کر بولا"جی ہم تو ساتھ چل کر تلاش کرنے والے ہیں۔۔۔" اور کرسی سےاٹھ کھڑا ہوا۔
ورکشاپ کے مالک سے پوچھ گچھ کی گئی مگر وہ تو کل شام سے قریبی گاؤں شادی کھانے گیا ابھی لوٹا تھا۔چابی چھوٹے کودےگیاتھا۔چھوٹا نہیں ملا تو تالے توڑدیے گئے۔۔۔ سب جگہ دیکھا کہ اتنے میں آواز آئی "سر واٹر ٹینک میں کچھ ہے۔" حمیدہ دیوار کا سہارا لیے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

لاش کوپوسٹ مارٹم کے لیےبھجوایاجارہاتھا۔حالت بتارہی تھی کہ کسی درندے نے نوچ کھایاہےاور جرم کو پانی سے دھونے کی کوشش کرگیاہے۔حمیدہ کے اردگرد کیمرے،مائیک اور روشنیاں تھیں۔۔۔۔بھانت بھانت کے سوالوں میں ایک ہی لفظ کی تکرار تھی "یومِ مئی" ۔۔۔

9 تبصرے:

  1. معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بہت وزنی الفاظ میں قلم بند کی.لیکن کسی کو فرصت کہاں کہ اس طرف بھی دھیان دے.

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت زور دار تحریر ہے۔غربت کا معاملہ جتنا دکھ بھرا ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ بھی۔اختتام بہت دردناک

    جواب دیںحذف کریں
  3. ابتدا تو دردناک تھی، انتہا کربناک ٹہری۔ لفظوں نے اپنے حصار میں یوں جکڑا کہ دل میں گھاو ڈال دیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. haqeeqat hay humary mashry ki hum sub hi es kay zimadaar hain oor es main asul zimadaar buchoun oor bachion ki waqat pay shadi na houna hay

    جواب دیںحذف کریں