بدھ، 27 مئی، 2015

کربناک تصویر کا سفاک رُخ

شادی بیاہ کےمعاملات میں ہم ہمیشہ ہی لڑکےوالوں کےغلط کردار کو زیرِ بحث لاتےہیں۔اورزیادہ تردیکھابھی یہی گیاہےکہ لڑکی پسند کرنےکےمراحل میں جانے کتنے نازک دل توڑے اورکتنےوالدین کی آنکھوں میں آنسواتارےجاتےہیں۔دوسروں کی بیٹی کو شوپیس سمجھنے والےمعاشرےمیں بھرے پڑے ہیں۔مگرگزشتہ دنوں گردوپیش میں کچھ ایسے واقعات و حالات دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ دل پریشان ہوکر رہ گیا۔خیال آیا کہ تصویرکےاس رُخ پرتوکبھی غورکرنےکی نوبت ہی نہ آئی۔
ہمارےہاں بیٹی پیدا ہوجائےتوعمومی معاشرتی رویہ یہی ہے کہ آنسو خوشی کے نہیں "بیٹی کےنصیب سےڈرلگتاہے" کے نام پر بہائے جاتےہیں۔بحثیتِ قوم ہرشعبہءزندگی میں کافی منافقانہ رویہ ہے۔بچی ابھی میٹرک میں پہنچتی ہےاور"بیری" پر ٹپاٹپ پتھربرسنے شروع۔قصورکچھ والدہ محترمہ کا بھی ہوتاہے جو ہرآئےگئےکےسامنےبیٹی کودیکھ کر سرد آہیں بھرا کرتی ہیں ۔
ایک سلسلہ شروع ہوتاہےمانوکوئی قربانی کا جانور پسندکرنا ہے۔مگر وہ زمانے اب گئے،یہاں توبیٹی خود اوروالدین کے بھی بہت سےقصور مانناہوں گے۔کبھی تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھیےکہ ہم لوگ کن خرافات میں قیمتی ترین وقت برباد کیا کرتے ہیں۔
مانتی ہوں کہ "جہیز" ایک لعنت ہے۔مزےکی بات یہ ہے کہ ہم میں سے 90٪لوگ یہ لعنت دینےاوربحقِ سسرال ضبط کرنےکی خداد صلاحیتوں سےمالامال ہیں۔لیکن عموماً آج کل متوسط گھرانوں میں لڑکیوں کی شادی میں تاخیرکی وجہ یہ جہیزنہیں نخرےہیں۔ذات ، برادری ،رنگ ،مسلک،مضبوط ترمعاشی حیثیت کی چھان پھٹک میں وقت مٹھی میں ریت کی مانند سرکتا جاتاہے۔جس کا احساس جب ہوتاہےکہ جس وقت بیٹی کونفسیاتی عوارض کا سامنا ہونے لگتاہے۔
پہلی شرط تو یہ کہ خاندان چھوٹاہو۔ بیٹی اتنابڑاسسرال اور ذمہ داری کیسے سنبھالےگی۔چاہے باورچی خانےمیں کھڑی بہودونوں ہاتھوں پر نندوں اور دیوروں کی تعداد کا حساب لگا رہی ہو۔ذات پات کی قید،مسلک تو "بڑا" مسئلہ بناہی ہے جناب رنگ شکل بھی لازم وملزوم ہوئے۔کبھی صرف لڑکےوالےیہ گھٹیا حرکات کرتےپائےجاتےتھے۔پہلےلڑکی کاگورارنگ اورلمبےبال اہم تھےاب لڑکے کاگنج پن بھی آڑے آجاتاہے۔
والدین تو خیربےوقوفی پرمُصرہیں ہی مگرلڑکیوں کےبھی کیا کہنے۔
تصوراتی دنیا، ڈائجسٹس، سوشل میڈیا، ڈرامے، فلمیں۔۔۔جانےکیا کیا "آئیڈیلز"بنارکھےہیں۔ڈاکٹر،انجینئر یاپھر آرمی آفیسر۔اس کےعلاوہ تو جناب سب پیشے حقیرہیں۔تلاش میں وقت گزراجاتاہے،پھروہ نوبت آتی ہےکہ خودکہنےلگتی ہیں اچھا کاروباری بندہ ہو،چاہےدوسری شادی ہی کیوں نہ کرلے۔کہاں تو "بریڈپِٹ، ٹام کروز" اور کچھ نگوڑ مارے "شاہ رخ" کی تلاش میں ہوتی ہیں اورکہاں پھر "فیقے" کی نوبت آجاتی ہے۔
والدین کی سن لیں تومعاشی سیکیورٹی کےنام پرجومطالبات ہیں ۔الامان الحفیظ ۔ کم ازکم 5 مرلےگھر،دس پندرہ تولےسونا،لاکھوں میں حق مہر اور ہزاروں میں مہینے کاخرچ نکاح نامےمیں درج کرنےکی حیثیت رکھتا ہوتب ہی لاڈو رانی کا رشتہ ہوگا۔صاحب برا مت منایے گا،سیکیورٹی کےنام پرکاروبار تو آپ بھی کررہےہیں۔
ایک قسم ان والدین اور بچیوں کی ہےجنہیں صرف بیرونِ ملک مقیم لڑکےکارشتہ ہی چاہیے۔بناچھان پھٹک فٹ ٹیلی فون پرنکاح بھی کردیےجاتےہیں۔اورہم نے وہ منظربھی دیکھاکہ ایک عزیزہ ایسے نکاح کے 10 ماہ بعد امریکہ پہنچیں،اٹھائیسویں روز پاکستان طلاق نامےکیساتھ واپسی ہوئی۔وہاں ان پرکیا بیتی وہ ایک الگ داستان ہے۔مگر "باہر" جانے کاچاؤ پھربھی پورانہیں ہوا۔اگلا رشتہ بھی بیرونِ ملک کا ہی درکار ہے۔دعاہی کی جاسکتی ہے۔
ذاتی رائے ہےکہ واقعی شادی واحد حل نہیں ہوا کرتامگرہم جس معاشرے،تہذیب اور حالات میں سانس لیتے ہیں یہاں متوسط تو کیا کھاتےپیتےگھرانوں میں بھی والدین کے سکون کا واحدذریعہ ضرور ماناجاتا ھےکہ ان کی اولاداپنی اپنی زندگی میں سیٹ ہے۔ایک معاشرتی اکائی ہے،نظام ہےجوچلتا رہنا ہی مناسب رویہ ہے۔مگرکیاہم اپنے رویوں پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں؟
کہاں لکھا ہےکہ بیٹی اگر ڈاکٹرہےیاسکول کالج میں پڑھا رہی ہےتو افلاطون داماد ہی تلاش کیاجائے؟ اگرسب ڈاکٹر،انجینئر ہی شادی کروابیٹھیں گےتو باقی شعبہ ہائےزندگی سےمنسلک افراد کیاکریں؟ ڈگری پرمان کس بات کا؟ یہیں آکرعلم اور تعلیم کافرق واضح ہوتاہے۔معاشرتی رویہ بن چکاہےکہ "تعلیم"اچھےرشتےکیلیے۔ہاں اگر "علم" ہوتاتو شاید معاشرےکابھی کچھ بھلاہوجاتا۔تعلیم کے نام پر بھی کاروبار ہی کررہے ہیں۔۔شادی افراد کے مابین رھے تو بہتر،ڈگریوں کےمابین شادیاں کم ہی کامیاب ہوتےدیکھیں۔
نام نہاد "اچھے" رشتوں کی تلاش میں لڑکے والے تو خیر "جلاد" ہیں ہی مگربیٹیاں اور ان کےوالدین بھی ، معذرت کےساتھ ، کاروباری ذہنیت اپناچکےہیں۔کبھی اپنے حالات پربھی غورکرلیں توشاید آسانیاں حاصل ہوجائیں۔
زندگی بھرکےفیصلوں میں اگر آپ "پرفیکٹ" کی تلاش میں ہیں تو مان لیجیےکہ غلطی پرہیں۔ایک لفظ ہے "کمپرومائز" ۔۔۔کسی نہ کسی معاملےمیں کرنا ہی پڑتاہے۔جب رشتہ دیکھتےوقت نہیں کریں گےتوپھرروتےپیٹتےبعدمیں بیٹی کوہی "نباہ" کرنا پڑےگا۔جوشایدزیادہ بڑی تکلیف ہواکرتی ہے۔
جولوگ بروقت کھلی حقیقت کوبڑے دل سے تسلیم کرلیاکرتےہیں نتائج بھی سکون اور خوشیاں ہی لاتےہیں ۔بصورتِ دیگر افسانوں والے"پرفیکٹ میچ"کی تلاش کا انجام اکثر 6 ماہ بعد کسی پنچائت میں دست وگریباں یا پھر عدالتوں میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے پر ہی ہواکرتاہے۔

جمعہ، 1 مئی، 2015

بندۂ مزدور کی اوقات

ہاتھ پاؤں بھی بتاتے ہیں کہ مزدور ہوں میں
اور ملبوس بھی کہتا  ہے کہ مجبور  ہوں میں


یہ ریلوے لائن کےکنارےآباد وہ کچی بستی تھی جسے جانے کتنی بار حکومت مسمارکرنےکانوٹس جاری کرواچکی تھی مگر بھلاہو ورک صاحب کا کہ ہر باراہل علاقہ کے بچوں اور خواتین کیساتھ عدالت سے "سٹےآرڈر" جاری کروا لاتےتھے۔
کچی پکی اور اِدھراُدھرسےاکٹھی کی گئی اینٹوں سےبنا ایک کمرہ اورکچاآنگن ۔۔۔حمیدہ خاتون اپنےاکلوتےبیٹےاورچاربیٹیوں کےساتھ یہیں آباد تھی۔اس کا شوہر چند برس قبل تیزگام تلے زندگی کی بازی ہارگیاتھا۔کہنےوالےتوخودکشی ہی بتاتےتھےمگرکون جانےکہ اولادکوجوان ہوتے دیکھ پینٹ کابرش کتنی بار لرزتاتھااورکتنی صبحیں وہ بغیر ناشتہ کیےزندگی کابوجھ ڈھونے،شام کےلیےروٹی کاایندھن کمانے گھرسے نکلاتھا۔ہرعید،ہڑتال،ہنگاموں کی نظر اس کی کتنی "دیہاڑیاں" خودکشی میں بسرہوئی تھیں۔
حمیدہ کوگھٹنوں اور گردوں کی شدید تکلیف تھی۔مگرریلوے کالونی میں صاحب لوگوں کےدوگھروں کی صفائی اور برتن دھونے کاکام مل گیاتھا۔دو بیٹیاں کسی فیکٹری میں تھیلےسیتی تھیں ،جبکہ تیسرےنمبروالی سب سے چھوٹی بہن کوتیار کرکے لاڈسےپیلی دیوار والےسکول بھیج دیتی کہ بہنوں کو بہت چاؤتھاگھرمیں کوئی توپڑھ لکھ کر"جہالت" سے نجات حاصل کرے۔مولوی صاحب کہتےتھےکہ علم کے بنا جانور اور انسان ایک برابر ہوتےہیں۔توبس اس ایک کمرےکےگھرمیں "ایک انسان" توہوناچاہیےنا۔
حمیدہ نے بیٹےکوموٹرمکینک کا کام سیکھنےبٹھا دیاتھا۔ابھی دس سال کاہی توتھاگڈو۔نام توشہریارتھامگراسے توخود یہ نام کبھی سکول میں بھی نہ ملاتھا۔زندگی کی چھکڑا ٹرین گھسیٹی جارہی تھی اور وقت نےاس چھکڑےکےآگےحمیدہ اوراس کےجگرگوشےہی جوت رکھےتھے۔
ماں نے چادرکھینچی اور گڈوکےبال سہلاتےاٹھایا۔"پترگڈو! اٹھا جابیٹا،دیر ہوگئی تو تیرا استاد ڈانٹےگا۔" گڈونے کروٹ لی اور ماں کویاد کروایاکہ آج یکم مئی ہے۔مگر ماں نے جب دل پر پتھر رکھ کر دوسری بار اٹھایاتو گڈو غصےمیں بولا "ماں پچھلےسال بھی استاد جی نےچھٹی کرلی تھی اورسارے بڑے لڑکےفلم دیکھنےچلےگئےتھے۔میں سارا دن بھوکا ورکشاپ بیٹھارہا،واپسی پر یادہے نا  کیسے پیدل چلتےسڑک پر بےہوش ہوگیاتھا؟ آج میں کام پر نہیں جاؤں گا۔بلکہ تو مجھےکسی اور ورکشاپ بٹھا دے،یہاں لڑکے اچھے نہیں ہیں۔" 
حمیدہ کو فکر یہ تھی کہ آج کی مزدوری استاد کاٹ لے گا۔چارو ناچار زبردستی گڈو کوناشتہ کروایا اور ورکشاپ روانہ کرکے اکیلی ہی کام پر روانہ ہوگئی کیونکہ  یومِ مئی پر  فیکٹری بھی بند تھی جہاں اس کی بیٹیاں کام کرتی تھیں۔
آج صاحب گھر پر تھے۔بیگم صاحبہ نے جلدی جلدی کام نبٹانے کا حکم دیاکیوں کہ   بچوں کیساتھ پکنک کا پروگرام تھا۔معمول سےپہلےگھرواپس لوٹی تو سوچا گڈوکےاستاد سے خود بات کرکےآئےکہ بڑے لڑکے اس کے راج دلارے کو تنگ کرتےہیں۔ورکشاپ پہنچی تو وہاں تالا تھا۔ماتھا ٹھنکا۔ ارد گرد سے دریافت کیاتوخبرہوئی کہ دکان سویرے ہی گھنٹے دو بعد بند کردی گئی تھی۔
حمیدہ نے رات تک گڈوکوتلاش کیا۔ ناکامی پر تھانے پہنچی اور واویلا مچاتی تھانیدار کورپورٹ درج کرنے کوکہا۔اس دوران ایک کیمرہ مین کیساتھ مائیک اٹھائے ایک میڈم داخل ہوئی ۔وہ یہاں کسی ملزم کا انٹرویو کرنے آئے تھی۔اس بیچ حمیدہ کا رونا پیٹنا سن کر بھاگی تھی۔۔"جی خاتون کیا مسئلہ ہے؟"  حمیدہ مائیک دیکھ کر گھبراگئی اور فوراً سسکیوں سے بتادیاکہ اکلوتا بیٹا نہیں مل رہا۔تھانیدار ایک لمحے کو الجھن زدہ چہرہ لیے گھورتا رہا اور پھر کیمرہ دیکھ کر بولا"جی ہم تو ساتھ چل کر تلاش کرنے والے ہیں۔۔۔" اور کرسی سےاٹھ کھڑا ہوا۔
ورکشاپ کے مالک سے پوچھ گچھ کی گئی مگر وہ تو کل شام سے قریبی گاؤں شادی کھانے گیا ابھی لوٹا تھا۔چابی چھوٹے کودےگیاتھا۔چھوٹا نہیں ملا تو تالے توڑدیے گئے۔۔۔ سب جگہ دیکھا کہ اتنے میں آواز آئی "سر واٹر ٹینک میں کچھ ہے۔" حمیدہ دیوار کا سہارا لیے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔

لاش کوپوسٹ مارٹم کے لیےبھجوایاجارہاتھا۔حالت بتارہی تھی کہ کسی درندے نے نوچ کھایاہےاور جرم کو پانی سے دھونے کی کوشش کرگیاہے۔حمیدہ کے اردگرد کیمرے،مائیک اور روشنیاں تھیں۔۔۔۔بھانت بھانت کے سوالوں میں ایک ہی لفظ کی تکرار تھی "یومِ مئی" ۔۔۔