منگل، 17 نومبر، 2015

ادھوری ہجرت

دودھ میں گندھے،مکھن اور تل لگے روغنی نان کا آرڈر دے کر گاڑی کے شیشے چڑھائے وہ ارد گرد کا جائزہ لے رہاتھا۔پوریوں کا آرڈر پہلے ہی دے چکا تھا۔یہ پاکستان میں بچوں کےساتھ اس کا آخری ناشتہ تھا۔شام کی فلائٹ سے واپس اسی پردیس لوٹ جانا تھا جہاں اس نے بیالیس سالہ زندگی کے چوبیس برس گزار دیے تھے۔
بارہ سالہ بچہ پیڑے کررہا تھا اور ایک نوجوان نہایت پھرتی سے پوریاں نکال رہا تھا۔اس سے کچھ فاصلے پر اخباروں کے بنڈلوں کا ڈھیر تھا۔ اور دو نوجوان اپنے حصے کے پرچےگن کر نکالتے اورسائیکل پر لگی ٹوکری میں مختلف اخبارات کو لپیٹ کر اڑس رہے تھے۔وہیں کریانہ سٹور کا مالک کاپی پینسل ہاتھ میں پکڑے حساب لکھ رہا تھا۔اس سے آگے چوراہےکی نکڑ پر سبزی والاجمائیاں لیتا،آنکھیں ملتا ڈبےمیں پانی لیے سڑک پر چھڑکاؤ کررہاتھا۔ساتھ ہی دیہاڑی دار مزدوروں نے فٹ پاتھ پر اپنی کدالیں اور بیلچے،رنگ وروغن کا سامان ، شیڈ کارڈز اور برش لگا کر آج کے دن کی مزدوری کیلیے اجتماعی دعا کا اہتمام کررکھاتھا۔فٹ پاتھ کی دوسری جانب ایک مالی اپنی نرسری کو سنوار رہا تھا۔۔اور اس سے آگے لگ بھگ اسی سالہ اپاہج زمین پر گھسٹتا مسجد کے سامنے اللہ سے سب کی خیر مانگ رہاتھا۔۔۔۔یہ سلسلہ قطار اندر قطار۔۔۔مگر اس کی دور کی نظر والی عینک بھی اس سے آگے کا منظر دھندھلا رہی تھی۔۔آگے شاید وہ پردیس تھا جس نے ماں کی آغوش کی مانند اس کی پرورش کی تھی۔
اس کا ناشتہ پیک ہوکر آگیا تھا۔۔۔بل ادا کیا اور بٹوے میں چند ہرے نوٹ اس کا منہ چڑھانے اور کام پر واپس جانےکی یاددہانی کو کافی تھے۔گھرلوٹتے اس نے جیب میں موجود رقم کا سب حساب لگا لیا تھا۔۔۔بیوی کو اس مہینے کا خرچ،نوبیاہتا بیٹی اور داماد کو شگن،اور ایک دو رشتہ داروں کو بھی نبٹانا تھا۔جدہ ائیرپورٹ پر لینڈ ہوتے تک شاید اس کے پاس ٹیکسی کا کرایہ ہی بچنے والاتھا
ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کرپایا تھا۔۔۔اس بار تین سال میں اس کا دوسرا چکرتھا یہ پاکستان کا۔پہلے بیٹی کی شادی نبٹاتے کمرتوڑ گیا تھا اور اب سوچ کر آیا تھا کہ یہیں حالات اور موقع دیکھ کر سیٹ ہوجائے۔۔ایک بار ریڈیئٹر کا ابلتا پانی ہاتھ جلا بیٹھا تھا۔دل کی تکلیف اور شوگر کے مرض نے اسے دو ہی سالوں میں نچوڑ ڈالا تھا۔مگر یہاں کے حالات ہی نرالے تھے۔ہر بار یہ سوچ کر آتا تھا کہ اب سب کچھ سمیٹ کر اپنے گھر کی روکھی سوکھی کھاؤں اور ہر بار بیوی نے کوئی بڑی کمیٹی ڈال رکھی ہوتی۔۔بڑا بیٹا پہلے انجینئرنگ کے نام پر تین سال کا ڈپلومہ کرتا رہا اور اب پھر بی۔ایس۔سی میں داخلہ لےلیا تھا۔گھر کے خرچ اور شریکا برادری چلانے کے نام پر ماہانہ خرچ بھیجتے اس کے بالوں میں وقت سے پہلے سفیدی اتر آئی تھی۔افسوس تو اسے یہ تھا کہ ابھی تک چار سال سے گھر کی تعمیر تک مکمل نہ ہوپائی تھی۔یہ بھی غنیمت تھا کہ بیرونِ ملک مقیم بھائی اور اس کی فیملی نے اپنا گھر کرائے پر دینے کی بجائے انہیں رہائش کیلیے سالوں سے دے رکھا تھا۔

 اس کا نام "مرد" تھا ۔۔۔ سیٹ بیلٹ باندھ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔حلق کڑواہٹ اور آنکھیں مرچی سے بھررہی تھیں۔۔۔جہازرن وے پر بھاگ رہا تھا اور ساتھ میں اس کا ذہن اس بار ہمیشہ کی طرح اپنے تین ہفتوں کے قیام کی بجائے پردیس میں گزاری زندگی کے چوبیس سالوں کو ٹٹول رہا تھا۔
اس کا باپ سعودیہ بھلے وقتوں میں گیا تھا اور پھر وہیں مزدوری کرتا ایک روز تابوت میں پاکستان لوٹا تھا۔ دھندلی سی یادیں تھیں ،ماں نے بہت بین ڈالے تھے اور آٹھ سالہ بیٹے کے واسطے دےکر جگانے کی کوشش کی تھی۔اسے یاد تھا کہ ماں ہاتھ جوڑکر کہتی رہی "سائیاں وے مُڑ آ۔۔۔۔ ایتھے تھوڑی کھا کے طعنہ نئیں دیاں گی۔" مگر اس کا باپ شاید جانتا تھا کہ اس ابدی نیند سے جاگ گیا تو تین چار ہفتوں بعد ہی گھر کے خرچے گنوا کر بہانے سے واپس پردیس کاٹنے کی تاریخ پوچھی جائے گی۔سو نہ جاگا۔
خاندان کے بیشتر مرد سعودیہ ہی محنت مزدوری کرکے پاکستان بیٹھے گھروں کو پال رہے تھے۔دو تین سال بعد چکر لگتا اور گھر کے افراد میں اضافےکی خوشخبری وہیں پردیس میں ملا کرتی۔باپ کے بعد پہلے اس کا بڑا بھائی ،پھر منجھلا سعودیہ چلا گیا۔ایک نے اے۔سی مرمت اور دوسرے نے ورکشاپ کا کام نبٹاتے آخراپنی دکان کا انتظام کرہی لیاتھا۔چھوٹا "مرد" بھی اٹھارویں برس میں بھائیوں نےاپنے پاس بلوالیاتھا۔ورکشاپ چل نکلی تھی۔اور دو سال بعد جب وہ ماں سے ملنے آیا تو بیس برس کی عمر میں سولہ سالہ بیوی ماں کی خدمت کرنے کو پاکستان چھوڑ آیا تھا۔پہلی اولاد کی پیدائش کی خبر اسے تار کی گئی تھی۔ماں کے گزرنے پر پاکستان گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد فیملی کو وہیں بلوا لیا۔بچے بڑے ہونے لگے تو "ادھوری ہجرت" پھر سے کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔وہ بہرحال مزدوری کرتا رہا ۔۔۔وقت گزرتا رہا۔
ہر بار پاکستان سے واپسی پر اس کے حصے کی مسکراہٹیں اور تلخیاں معکوس ہوتی جارہی تھیں۔ڈاکٹروں نے اسے محنت طلب کام سے منع کیا تھا۔سادہ غذا اور آرام کے بنا دوا اثر نہیں کررہی تھی۔مگر اس کی ہم سفر کا ماننا تھا کہ پاکستان آتےہی منرل پانی،کُکنگ آئل، مرچیں اور چینی کے معاملے پر سارے گھر کا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔مہمانوں کا تانتا ، نندوں کا گھیرا، سسرالیوں کی چھاؤنیاں۔۔۔خرچ تین گنا۔۔۔۔۔وقت کم مقابلہ سخت۔۔۔ایسے میں ہر بار ائیرپورٹ کے لاؤنج میں وہی بیوی جو کبھی آنسوؤں سے رخصت کیا کرتی تھی۔۔۔"اب تین چار سال دل لگا کر کام کرلیجیے۔" کہتی نگاہیں چرا جاتی تھی۔
اس بار اچھے علاقے میں ورکشاپ وغیرہ سب دیکھ لی تھی۔۔شاید بیعانہ بھی نبٹا لیتا مگر داماد نے کچھ ماہ بعد اس کی نازوں پلی بیٹی کو سعودیہ بلوانے کا اشارہ دے دیا تھا۔۔۔باپ ہونے کے ناطے اسے فرض یاد دلوایا گیا تھا کہ بیٹی کو اچھے سے وہاں سیٹ کرکے ہی لوٹے۔پھر بیٹے کو نوکری ملنے میں پانچ سال باقی تھے۔چھوٹی بیٹی کا جہیز بھی بنانا تھا۔۔۔۔ قصہ مختصر پھر وہی پردیس اور وہی اپنوں سے دوری کا زخم چاٹنا تھا۔۔۔
سینے میں ٹیس شدید تھی۔۔آنکھوں کو زبردستی کھول کر اطلاعی گھنٹی بجائی۔۔خشک ہوتی زبان پر چند قطرے پانی ٹپکانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ ائیر ہوسٹس کی آواز کانوں میں مدہم ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار شاید ایک اور تابوت وطن کی مٹی اور اپنوں میں جینے کی آس لیے پلٹنے والا تھا۔

پیر، 9 نومبر، 2015

اسرارِ خودی سے رموزِ بے خودی تک

یومِ اقبال  کے نام پر اس برس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنی گفتگو ہوئی کہ ایک اندازے کے مطابق اتنا تذکرہ ١٣۹ برس میں امن کی فاختہ کا نہیں ہوا۔اقبالؒ بھی اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے سوچتے ہوں گے کہ جتنی کاوش چھٹی کی بحالی کے لیے کی گئی ہے اتنی محنت تو شاید ان کی قوم نے کبھی عربی یا فارسی کا اختیاری مضمون پاس کرنے میں نہیں لگائی ۔
جلاؤ گھراؤ، شہر بند ،مقامی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختلف عرس کی چھٹیاں، شٹرڈاؤن ، یومِ سیاہ اور آدھی دنیا کا غم پال کر آئے روز سکول دفاتر بند کروانے کے علاوہ یومِ مزدورپر آپ نے کبھی کسی دیہاڑی دار کو پکنک مناتے دیکھا ہو یا کشمیر ڈے پر کشمیری پلاؤ کے علاوہ کوئی اہم پیش رفت دیکھی ہو تو آگاہ کیجیے گا۔یومِ تکبیر کے نام پر چھٹی سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو خراجِ تحسین پیش کرلیجیے۔یومِ دفاع ہو یا پھر یومِ پاکستان ہم بھرپور ملی جذبے سے سو کر گزارتےہیں۔ عید الاضحیٰ کی تین اور ہفتہ اتوار جوڑ کر پوری پانچ چھٹیوں کے بعدبھی دفاتر و سکولزمیں حاضری قابلِ رشک نہیں ہوتی ۔عیدالفطرکی دوچھٹیاں ہوں یا عاشورہ کی ، عید میلاد النبی
ہو یا پھریومِ آزادی۔۔۔۔ایک طویل فہرست ہے تعطیلات کے نام پر ۔اس کے باوجود ٢٥دسمبر کو ولادتِ جناحؒ اور کرسمس کی چھٹی کفایت شعاری میں نبٹاتے اعتراض ہوجائے گا۔
مشاہیر نے کب چاہا ہوگا کہ ان کے نام پر چھٹی منائی جائے اور معیشت کو اربوں کا ٹیکہ لگے۔ ٢١ اپریل ہو یا ١١ ستمبر دونوں چھٹیاں متروک ہوئیں تو عوام ایک دو سال میں بھول بھی گئے۔ وجہ شاید ان دنوں سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ اور معاوضہ وصول کرتی ٹیموں کا نہ ہونا ہے۔
جتلایا گیا کہ ہمارے ہاں تو دنیا میں سب سے کم چھٹیاں ہورہی ہیں۔حساب لگانے بیٹھی تو صرف سرکاری سطح پرہی ٢
۰١٤ء تک اٹھارہ چھٹیاں موجود تھیں۔اس برس وفاق کو جانے کیا سوجھی کہ اقبال کے شاہینوں کو آدھے دن منہ کھول کر سونے اور بھرپور ناشتہ کرکے خاندان کیساتھ پکنک منا کر اقبالؒ کے "رموزِ بےخودی" پر بحث سے روک دیا گیا۔
خدا سلامت رکھے گوگل سرچ انجن کو کہ جس کی بدولت ہمارے علم میں اضافہ ہوا اور اُن اقوام پر بہت ہی ترس آیا کہ جن کے ہاں سرکاری چھٹیوں کی تعداد اس قدر کم ہے۔ ہمارا "ازلی دشمن" بھارت سرکاری طور پر چھ
 چھٹیوں کی عیاشی کرتا ہے۔برطانیہ میں سنا ہے کہ آٹھ اور امریکہ میں فقط بارہ جبکہ چین میں دس اور نیوزی لینڈ میں شاید سات سرکاری تعطیلات ہوا کرتی ہیں۔ مگر ہمیں ان اعداد و شمار سے کیا غرض۔
شاعرِ مشرق کے یومِ ولادت پر چھٹی منسوخ ہونے کا غم یوں بھی دوگنا ہے کہ مووی اور لنچ کے سب منصوبے دھرے رہ گئے۔جواز یہ پیش کیا جاتا رہا کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ایک دو سے پوچھا کہ اجتہادی بصیرت ، اتحاد اور مسلمانوں کی زندگی میں محنت اور عمل پیدا ہوتے دیکھنا شاید علامہ کا اصل خواب تھا؟!؟ تو جواب میں کچھ القابات سے نواز دیا گیا۔ شکر کیا کہ چوھدری رحمت علی ایسے کسی بھی مسئلے سے مستثنیٰ ہیں کہ نہ ان کے یومِ ولادت کا مسئلہ اور نا ہی یومِ وفات کی چھٹی وغیرہ پر واویلا۔
ایک وہ گروہ ہے جس نے اقبال کے چند اشعار کی بنیاد پر دل میں ایسی مخاصمت پال لی ہے کہ اُنہیں نیچا دکھانے کو نجی زندگی اور مشاغل کو زیرِ بحث لانے کے علاوہ اقبالیات کے نام پر ایک لفظ پڑھ کر نہیں دیکھا ۔ساری تحقیق اور تمام مطالعہ اُن کی شادیوں، بچے،گھریلو حالات اور مصائب کے گرد ہی گھومتا ہے۔نہ کبھی
 جاوید نامہ کھول کر دیکھا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ غالب سے لے کر کارل مارکس اور جمال الدین افغانی کے ذکر سے لے کر رومی کیساتھ افلاک کے تخیلاتی سفر میں اقبال کیا کچھ کہہ گئے۔۔فارسی میں ہے تو شاید زبان کا مسئلہ ہو ۔اردو ترجمہ پڑھ لیجیے جناب۔  بس مخالفت برائے مخالفت۔دلائل اورحوالہ جات علمی رہیں تو مناسب رہتا ہے۔
دوسرا گروہ فتوے کا بیانیہ ضرور دےگا،وہ الگ معاملہ کہ تینوں مساجد/مدارس کانام معلوم نہیں ہوگا جبکہ مسالک والی بات کو ہڑپ کرجائیں گے۔ آج اقبال
ؒ کے خلاف مولوی دیدار علی اور مولانا احمد علی کے فتوے کہاں کھڑے ہیں؟ ہاں مگر انہی کے نام لیوا چھٹی منسوخ ہونے پر چلاتے ضرور پائے گئے ہیں کہ "ہمارے ہیں اقبال"۔۔۔
اُس دور میں پنجاب کی ابھرتی مڈل کلاس متضاد خیالات کی مالک سمجھی جاتی تھی اور علامہ اقبال کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا۔
بعض جگہوں پر اقبال سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کا یہ اعترافی جملہ  "میری ایک ہی خصوصیت ہے اور وہ ہے میرا ذہنی ارتقاء۔۔۔" قابلِ غور ہے۔
سوچ کو جمود کا شکار نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے "اسرارِ خودی" میں انفرادی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچاننے کا سبق دیا تو
 "رموزِ بےخودی" میں ملت کے ساتھ فرد کا ربط ،عائلی زندگی اور ریاست کا نظم و ضبط بیان کرکے فلسفہء خودی میں غرور کا عنصر تلاش کرنے والوں کو خاموش کروادیا۔ آج کی تاریخ میں سیاستدان ، دانشور ، صحافی اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بقراط فلسفہء خودی کی ضرورت پر زور دیں گے مگر اس کی روح کو سمجھ کر مفہوم بتانے اور عمل کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ رموزِ بےخودی کو یکسر نظر انداز کرکے ریاست سے رابطہ کیسے قائم رہے گا۔یہ تذکرہ کون کرے۔
ایک اور گروہ پایا جاتا ہے جس نے " اسلام میں مذہبی خیالات کی تشکیلِ نو" پڑھے بنا ہی فیصلہ کرلیا ہے۔انہیں چاہیے کہ "محاورہ مابین خدا و انسان" پڑھیں۔شاید بغض سے چھٹکارہ مل جائے۔
التماس تو یہ بھی ہے کہ علامہ محمد اقبال کو وہی حضرتِ انسان رہنے دیجیے جس کو ملائکہ نے سجدہ کیا۔خطاؤں سے مبرا کوئی بھی نہیں ۔ عقیدت کے بتوں کو پوجنے کی بجائے انسانوں کے بہتر معاملات کی تقلید مناسب راہ سجھا سکتی ہے ۔ ادبی تشبیہات و استعارے اور اسلوب پر فتوے لگانا اگر ناجائز ہے تو اُنہیں زمانے و حالات کے مطابق ڈھال کر سمجھنے کی سعی نہ کرنا بھی جرم ہے۔
باقی یہ کہ شیر، شاہین، کرگس،عقاب اور فاختہ و مینا کے لاحاصل موازنے سے انسانوں کی بھلائی ہونے والی ہوتی تو انسان پتے باندھ کر، پتھر رگڑ کر آگ تاپتا اور بچے جنتا رہتا۔اور یوں سرکاری و مقامی تعطیلات والا جھگڑا بھی جنم نہ لیتا۔