دودھ میں گندھے،مکھن اور تل لگے روغنی نان کا آرڈر دے کر گاڑی کے شیشے چڑھائے وہ ارد گرد کا جائزہ لے رہاتھا۔پوریوں کا آرڈر پہلے ہی دے چکا تھا۔یہ پاکستان میں بچوں کےساتھ اس کا آخری ناشتہ تھا۔شام کی فلائٹ سے واپس اسی پردیس لوٹ جانا تھا جہاں اس نے بیالیس سالہ زندگی کے چوبیس برس گزار دیے تھے۔
بارہ سالہ بچہ پیڑے کررہا تھا اور ایک نوجوان نہایت پھرتی سے پوریاں نکال رہا تھا۔اس سے کچھ فاصلے پر اخباروں کے بنڈلوں کا ڈھیر تھا۔ اور دو نوجوان اپنے حصے کے پرچےگن کر نکالتے اورسائیکل پر لگی ٹوکری میں مختلف اخبارات کو لپیٹ کر اڑس رہے تھے۔وہیں کریانہ سٹور کا مالک کاپی پینسل ہاتھ میں پکڑے حساب لکھ رہا تھا۔اس سے آگے چوراہےکی نکڑ پر سبزی والاجمائیاں لیتا،آنکھیں ملتا ڈبےمیں پانی لیے سڑک پر چھڑکاؤ کررہاتھا۔ساتھ ہی دیہاڑی دار مزدوروں نے فٹ پاتھ پر اپنی کدالیں اور بیلچے،رنگ وروغن کا سامان ، شیڈ کارڈز اور برش لگا کر آج کے دن کی مزدوری کیلیے اجتماعی دعا کا اہتمام کررکھاتھا۔فٹ پاتھ کی دوسری جانب ایک مالی اپنی نرسری کو سنوار رہا تھا۔۔اور اس سے آگے لگ بھگ اسی سالہ اپاہج زمین پر گھسٹتا مسجد کے سامنے اللہ سے سب کی خیر مانگ رہاتھا۔۔۔۔یہ سلسلہ قطار اندر قطار۔۔۔مگر اس کی دور کی نظر والی عینک بھی اس سے آگے کا منظر دھندھلا رہی تھی۔۔آگے شاید وہ پردیس تھا جس نے ماں کی آغوش کی مانند اس کی پرورش کی تھی۔
اس کا ناشتہ پیک ہوکر آگیا تھا۔۔۔بل ادا کیا اور بٹوے میں چند ہرے نوٹ اس کا منہ چڑھانے اور کام پر واپس جانےکی یاددہانی کو کافی تھے۔گھرلوٹتے اس نے جیب میں موجود رقم کا سب حساب لگا لیا تھا۔۔۔بیوی کو اس مہینے کا خرچ،نوبیاہتا بیٹی اور داماد کو شگن،اور ایک دو رشتہ داروں کو بھی نبٹانا تھا۔جدہ ائیرپورٹ پر لینڈ ہوتے تک شاید اس کے پاس ٹیکسی کا کرایہ ہی بچنے والاتھا
ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کرپایا تھا۔۔۔اس بار تین سال میں اس کا دوسرا چکرتھا یہ پاکستان کا۔پہلے بیٹی کی شادی نبٹاتے کمرتوڑ گیا تھا اور اب سوچ کر آیا تھا کہ یہیں حالات اور موقع دیکھ کر سیٹ ہوجائے۔۔ایک بار ریڈیئٹر کا ابلتا پانی ہاتھ جلا بیٹھا تھا۔دل کی تکلیف اور شوگر کے مرض نے اسے دو ہی سالوں میں نچوڑ ڈالا تھا۔مگر یہاں کے حالات ہی نرالے تھے۔ہر بار یہ سوچ کر آتا تھا کہ اب سب کچھ سمیٹ کر اپنے گھر کی روکھی سوکھی کھاؤں اور ہر بار بیوی نے کوئی بڑی کمیٹی ڈال رکھی ہوتی۔۔بڑا بیٹا پہلے انجینئرنگ کے نام پر تین سال کا ڈپلومہ کرتا رہا اور اب پھر بی۔ایس۔سی میں داخلہ لےلیا تھا۔گھر کے خرچ اور شریکا برادری چلانے کے نام پر ماہانہ خرچ بھیجتے اس کے بالوں میں وقت سے پہلے سفیدی اتر آئی تھی۔افسوس تو اسے یہ تھا کہ ابھی تک چار سال سے گھر کی تعمیر تک مکمل نہ ہوپائی تھی۔یہ بھی غنیمت تھا کہ بیرونِ ملک مقیم بھائی اور اس کی فیملی نے اپنا گھر کرائے پر دینے کی بجائے انہیں رہائش کیلیے سالوں سے دے رکھا تھا۔
اس کا نام "مرد" تھا ۔۔۔ سیٹ بیلٹ باندھ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔حلق کڑواہٹ اور آنکھیں مرچی سے بھررہی تھیں۔۔۔جہازرن وے پر بھاگ رہا تھا اور ساتھ میں اس کا ذہن اس بار ہمیشہ کی طرح اپنے تین ہفتوں کے قیام کی بجائے پردیس میں گزاری زندگی کے چوبیس سالوں کو ٹٹول رہا تھا۔
اس کا باپ سعودیہ بھلے وقتوں میں گیا تھا اور پھر وہیں مزدوری کرتا ایک روز تابوت میں پاکستان لوٹا تھا۔ دھندلی سی یادیں تھیں ،ماں نے بہت بین ڈالے تھے اور آٹھ سالہ بیٹے کے واسطے دےکر جگانے کی کوشش کی تھی۔اسے یاد تھا کہ ماں ہاتھ جوڑکر کہتی رہی "سائیاں وے مُڑ آ۔۔۔۔ ایتھے تھوڑی کھا کے طعنہ نئیں دیاں گی۔" مگر اس کا باپ شاید جانتا تھا کہ اس ابدی نیند سے جاگ گیا تو تین چار ہفتوں بعد ہی گھر کے خرچے گنوا کر بہانے سے واپس پردیس کاٹنے کی تاریخ پوچھی جائے گی۔سو نہ جاگا۔
خاندان کے بیشتر مرد سعودیہ ہی محنت مزدوری کرکے پاکستان بیٹھے گھروں کو پال رہے تھے۔دو تین سال بعد چکر لگتا اور گھر کے افراد میں اضافےکی خوشخبری وہیں پردیس میں ملا کرتی۔باپ کے بعد پہلے اس کا بڑا بھائی ،پھر منجھلا سعودیہ چلا گیا۔ایک نے اے۔سی مرمت اور دوسرے نے ورکشاپ کا کام نبٹاتے آخراپنی دکان کا انتظام کرہی لیاتھا۔چھوٹا "مرد" بھی اٹھارویں برس میں بھائیوں نےاپنے پاس بلوالیاتھا۔ورکشاپ چل نکلی تھی۔اور دو سال بعد جب وہ ماں سے ملنے آیا تو بیس برس کی عمر میں سولہ سالہ بیوی ماں کی خدمت کرنے کو پاکستان چھوڑ آیا تھا۔پہلی اولاد کی پیدائش کی خبر اسے تار کی گئی تھی۔ماں کے گزرنے پر پاکستان گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد فیملی کو وہیں بلوا لیا۔بچے بڑے ہونے لگے تو "ادھوری ہجرت" پھر سے کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔وہ بہرحال مزدوری کرتا رہا ۔۔۔وقت گزرتا رہا۔
ہر بار پاکستان سے واپسی پر اس کے حصے کی مسکراہٹیں اور تلخیاں معکوس ہوتی جارہی تھیں۔ڈاکٹروں نے اسے محنت طلب کام سے منع کیا تھا۔سادہ غذا اور آرام کے بنا دوا اثر نہیں کررہی تھی۔مگر اس کی ہم سفر کا ماننا تھا کہ پاکستان آتےہی منرل پانی،کُکنگ آئل، مرچیں اور چینی کے معاملے پر سارے گھر کا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔مہمانوں کا تانتا ، نندوں کا گھیرا، سسرالیوں کی چھاؤنیاں۔۔۔خرچ تین گنا۔۔۔۔۔وقت کم مقابلہ سخت۔۔۔ایسے میں ہر بار ائیرپورٹ کے لاؤنج میں وہی بیوی جو کبھی آنسوؤں سے رخصت کیا کرتی تھی۔۔۔"اب تین چار سال دل لگا کر کام کرلیجیے۔" کہتی نگاہیں چرا جاتی تھی۔
اس بار اچھے علاقے میں ورکشاپ وغیرہ سب دیکھ لی تھی۔۔شاید بیعانہ بھی نبٹا لیتا مگر داماد نے کچھ ماہ بعد اس کی نازوں پلی بیٹی کو سعودیہ بلوانے کا اشارہ دے دیا تھا۔۔۔باپ ہونے کے ناطے اسے فرض یاد دلوایا گیا تھا کہ بیٹی کو اچھے سے وہاں سیٹ کرکے ہی لوٹے۔پھر بیٹے کو نوکری ملنے میں پانچ سال باقی تھے۔چھوٹی بیٹی کا جہیز بھی بنانا تھا۔۔۔۔ قصہ مختصر پھر وہی پردیس اور وہی اپنوں سے دوری کا زخم چاٹنا تھا۔۔۔
سینے میں ٹیس شدید تھی۔۔آنکھوں کو زبردستی کھول کر اطلاعی گھنٹی بجائی۔۔خشک ہوتی زبان پر چند قطرے پانی ٹپکانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ ائیر ہوسٹس کی آواز کانوں میں مدہم ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار شاید ایک اور تابوت وطن کی مٹی اور اپنوں میں جینے کی آس لیے پلٹنے والا تھا۔
بارہ سالہ بچہ پیڑے کررہا تھا اور ایک نوجوان نہایت پھرتی سے پوریاں نکال رہا تھا۔اس سے کچھ فاصلے پر اخباروں کے بنڈلوں کا ڈھیر تھا۔ اور دو نوجوان اپنے حصے کے پرچےگن کر نکالتے اورسائیکل پر لگی ٹوکری میں مختلف اخبارات کو لپیٹ کر اڑس رہے تھے۔وہیں کریانہ سٹور کا مالک کاپی پینسل ہاتھ میں پکڑے حساب لکھ رہا تھا۔اس سے آگے چوراہےکی نکڑ پر سبزی والاجمائیاں لیتا،آنکھیں ملتا ڈبےمیں پانی لیے سڑک پر چھڑکاؤ کررہاتھا۔ساتھ ہی دیہاڑی دار مزدوروں نے فٹ پاتھ پر اپنی کدالیں اور بیلچے،رنگ وروغن کا سامان ، شیڈ کارڈز اور برش لگا کر آج کے دن کی مزدوری کیلیے اجتماعی دعا کا اہتمام کررکھاتھا۔فٹ پاتھ کی دوسری جانب ایک مالی اپنی نرسری کو سنوار رہا تھا۔۔اور اس سے آگے لگ بھگ اسی سالہ اپاہج زمین پر گھسٹتا مسجد کے سامنے اللہ سے سب کی خیر مانگ رہاتھا۔۔۔۔یہ سلسلہ قطار اندر قطار۔۔۔مگر اس کی دور کی نظر والی عینک بھی اس سے آگے کا منظر دھندھلا رہی تھی۔۔آگے شاید وہ پردیس تھا جس نے ماں کی آغوش کی مانند اس کی پرورش کی تھی۔
اس کا ناشتہ پیک ہوکر آگیا تھا۔۔۔بل ادا کیا اور بٹوے میں چند ہرے نوٹ اس کا منہ چڑھانے اور کام پر واپس جانےکی یاددہانی کو کافی تھے۔گھرلوٹتے اس نے جیب میں موجود رقم کا سب حساب لگا لیا تھا۔۔۔بیوی کو اس مہینے کا خرچ،نوبیاہتا بیٹی اور داماد کو شگن،اور ایک دو رشتہ داروں کو بھی نبٹانا تھا۔جدہ ائیرپورٹ پر لینڈ ہوتے تک شاید اس کے پاس ٹیکسی کا کرایہ ہی بچنے والاتھا
ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کرپایا تھا۔۔۔اس بار تین سال میں اس کا دوسرا چکرتھا یہ پاکستان کا۔پہلے بیٹی کی شادی نبٹاتے کمرتوڑ گیا تھا اور اب سوچ کر آیا تھا کہ یہیں حالات اور موقع دیکھ کر سیٹ ہوجائے۔۔ایک بار ریڈیئٹر کا ابلتا پانی ہاتھ جلا بیٹھا تھا۔دل کی تکلیف اور شوگر کے مرض نے اسے دو ہی سالوں میں نچوڑ ڈالا تھا۔مگر یہاں کے حالات ہی نرالے تھے۔ہر بار یہ سوچ کر آتا تھا کہ اب سب کچھ سمیٹ کر اپنے گھر کی روکھی سوکھی کھاؤں اور ہر بار بیوی نے کوئی بڑی کمیٹی ڈال رکھی ہوتی۔۔بڑا بیٹا پہلے انجینئرنگ کے نام پر تین سال کا ڈپلومہ کرتا رہا اور اب پھر بی۔ایس۔سی میں داخلہ لےلیا تھا۔گھر کے خرچ اور شریکا برادری چلانے کے نام پر ماہانہ خرچ بھیجتے اس کے بالوں میں وقت سے پہلے سفیدی اتر آئی تھی۔افسوس تو اسے یہ تھا کہ ابھی تک چار سال سے گھر کی تعمیر تک مکمل نہ ہوپائی تھی۔یہ بھی غنیمت تھا کہ بیرونِ ملک مقیم بھائی اور اس کی فیملی نے اپنا گھر کرائے پر دینے کی بجائے انہیں رہائش کیلیے سالوں سے دے رکھا تھا۔
اس کا نام "مرد" تھا ۔۔۔ سیٹ بیلٹ باندھ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔حلق کڑواہٹ اور آنکھیں مرچی سے بھررہی تھیں۔۔۔جہازرن وے پر بھاگ رہا تھا اور ساتھ میں اس کا ذہن اس بار ہمیشہ کی طرح اپنے تین ہفتوں کے قیام کی بجائے پردیس میں گزاری زندگی کے چوبیس سالوں کو ٹٹول رہا تھا۔
اس کا باپ سعودیہ بھلے وقتوں میں گیا تھا اور پھر وہیں مزدوری کرتا ایک روز تابوت میں پاکستان لوٹا تھا۔ دھندلی سی یادیں تھیں ،ماں نے بہت بین ڈالے تھے اور آٹھ سالہ بیٹے کے واسطے دےکر جگانے کی کوشش کی تھی۔اسے یاد تھا کہ ماں ہاتھ جوڑکر کہتی رہی "سائیاں وے مُڑ آ۔۔۔۔ ایتھے تھوڑی کھا کے طعنہ نئیں دیاں گی۔" مگر اس کا باپ شاید جانتا تھا کہ اس ابدی نیند سے جاگ گیا تو تین چار ہفتوں بعد ہی گھر کے خرچے گنوا کر بہانے سے واپس پردیس کاٹنے کی تاریخ پوچھی جائے گی۔سو نہ جاگا۔
خاندان کے بیشتر مرد سعودیہ ہی محنت مزدوری کرکے پاکستان بیٹھے گھروں کو پال رہے تھے۔دو تین سال بعد چکر لگتا اور گھر کے افراد میں اضافےکی خوشخبری وہیں پردیس میں ملا کرتی۔باپ کے بعد پہلے اس کا بڑا بھائی ،پھر منجھلا سعودیہ چلا گیا۔ایک نے اے۔سی مرمت اور دوسرے نے ورکشاپ کا کام نبٹاتے آخراپنی دکان کا انتظام کرہی لیاتھا۔چھوٹا "مرد" بھی اٹھارویں برس میں بھائیوں نےاپنے پاس بلوالیاتھا۔ورکشاپ چل نکلی تھی۔اور دو سال بعد جب وہ ماں سے ملنے آیا تو بیس برس کی عمر میں سولہ سالہ بیوی ماں کی خدمت کرنے کو پاکستان چھوڑ آیا تھا۔پہلی اولاد کی پیدائش کی خبر اسے تار کی گئی تھی۔ماں کے گزرنے پر پاکستان گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد فیملی کو وہیں بلوا لیا۔بچے بڑے ہونے لگے تو "ادھوری ہجرت" پھر سے کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔وہ بہرحال مزدوری کرتا رہا ۔۔۔وقت گزرتا رہا۔
ہر بار پاکستان سے واپسی پر اس کے حصے کی مسکراہٹیں اور تلخیاں معکوس ہوتی جارہی تھیں۔ڈاکٹروں نے اسے محنت طلب کام سے منع کیا تھا۔سادہ غذا اور آرام کے بنا دوا اثر نہیں کررہی تھی۔مگر اس کی ہم سفر کا ماننا تھا کہ پاکستان آتےہی منرل پانی،کُکنگ آئل، مرچیں اور چینی کے معاملے پر سارے گھر کا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔مہمانوں کا تانتا ، نندوں کا گھیرا، سسرالیوں کی چھاؤنیاں۔۔۔خرچ تین گنا۔۔۔۔۔وقت کم مقابلہ سخت۔۔۔ایسے میں ہر بار ائیرپورٹ کے لاؤنج میں وہی بیوی جو کبھی آنسوؤں سے رخصت کیا کرتی تھی۔۔۔"اب تین چار سال دل لگا کر کام کرلیجیے۔" کہتی نگاہیں چرا جاتی تھی۔
اس بار اچھے علاقے میں ورکشاپ وغیرہ سب دیکھ لی تھی۔۔شاید بیعانہ بھی نبٹا لیتا مگر داماد نے کچھ ماہ بعد اس کی نازوں پلی بیٹی کو سعودیہ بلوانے کا اشارہ دے دیا تھا۔۔۔باپ ہونے کے ناطے اسے فرض یاد دلوایا گیا تھا کہ بیٹی کو اچھے سے وہاں سیٹ کرکے ہی لوٹے۔پھر بیٹے کو نوکری ملنے میں پانچ سال باقی تھے۔چھوٹی بیٹی کا جہیز بھی بنانا تھا۔۔۔۔ قصہ مختصر پھر وہی پردیس اور وہی اپنوں سے دوری کا زخم چاٹنا تھا۔۔۔
سینے میں ٹیس شدید تھی۔۔آنکھوں کو زبردستی کھول کر اطلاعی گھنٹی بجائی۔۔خشک ہوتی زبان پر چند قطرے پانی ٹپکانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ ائیر ہوسٹس کی آواز کانوں میں مدہم ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار شاید ایک اور تابوت وطن کی مٹی اور اپنوں میں جینے کی آس لیے پلٹنے والا تھا۔