منگل، 9 دسمبر، 2014

ہزارہ موٹروے




      کسی بھی ملک کی ترقی کیلیے ذرائع آمدورفت ایک مسلمہ اہمیت رکھتےھیں۔پاکستان میں سڑکوں کاجال اورموٹروےکےذریعےپورےملک کوایک لڑی میں جوڑنےکی کوشش کی جارھی ھے۔سیاحت،تجارت،صنعت اور زراعت جیسےمیدان کبھی بھی بھرپورترقی نہیں کرسکتےاگرآپ کا شاہراہوں کانظام درست نہ ھو۔ تنقیدبرائےتنقیدایک لمحہ کوبھول جایئےاورسوچیےکہ آج سے پندرہ بیس برس پہلےفقط  کلرکہارکاپرپیچ سنگل روڈکیساخطرناک معلوم ھوتاتھا۔میں اس موضوع پرایسی شاندار دسترس تونہیں رکھتی کہ بحث میں الجھوں مگرایک عام پاکستانی کی حیثیت سے اپنی سوچ کوبیان کرنا حق جانتی ھوں۔


 میاں محمدنوازشریف صاحب نےاپنےپہلےدورِاقتدار(1990-1993) کےدوران موٹروےمنصوبہ کااعلان کیامگر 26نومبر1997میں ان کےدوسرےدورِاقتدارمیں اس منصوبےکاافتتاح کیاگیا۔جولائی 2014تک آپریشنل موٹروےکی لمبائی 679.5کلومیٹرتک پہنچ چکی تھی۔جبکہ278 کلومیٹرزیرِتعمیرھے۔حکومت 1502کلومیٹرآئیندہ 10 سالوں میں اضافےکامنصوبہ پاس کرچکی ھے۔جس میں ایکسپریس وےاورموٹروے شامل ھیں۔پاکستان میں موٹروے6-4لینزپرمشتمل ھے۔جبکہ 4 لین والوں کوضرورت کےمطابق توسیع دےدی جائےگی۔
سنہء2013کی الیکشن کیمپین کےدوران میاں نوازشریف نے ہزارہ موٹروےکاوعدہ کیاتھا۔اور29نومبر2014کی دوپہراپنےاس وعدہ کی تکمیل کیلیے حویلیاں پہنچ رھےتھے۔میں پچھلے 100روزسےڈی-چوک کےدھرنوں کی خستہ حالت سے اس قدراوب چکی تھی کہ ہزارہ موٹروےکی افتتاحی تقریب میں جانے کافیصلہ کرلیا۔اسلام آباد سے حویلیاں 102 کلومیٹرکےفاصلہ پرھے۔اپنی گاڑی میں ٹیکسلا تک کاسفرتوپھربھی بہتر رھامگرآگےکامشکل سفرمجھےیہ باورکروانےکیلیےکافی ممدومعاون ثابت ھواکہ ہزارہ کی عوام کو اس نئےمنصوبےکی کتنی اشدضرورت تھی۔
  



راستےمیں گاڑیوں کاایک سیلاب تھا۔
اڑھائی گھنٹےمیں جلسہ کےمقام پرپہنچ پائی۔جبکہ ایک مقام پرآٹھ دس بچوں کاٹولہ اپنا"گوگوپان مصالحہ"بیچنےمیں مصروف تھا۔جلسہ کےمقام پرلوگوں کاجوش دیدنی تھا۔خواتین،بوڑھے،بچےاورجوان پہاڑکی چوٹی پرپیدل چل کرپہنچ رھےتھے۔یہ ایک بڑاجلسہ تھا۔میں تعدادکےچکرمیں نہیں پڑتی کہ کوئی سیاسی جلسہ نہ تھامگرایک وعدےکی تکمیل کادن تھا۔جسکی خوشی میں وزیراعظم کاشکریہ اداکرنےکیلیےہزارہ کی عوام اکھٹی ھوئی تھی۔ہاں مگروہاں موجودتعداداتنی ضرور تھی کہ 100 دن کےدھرنوں میں دکھائی نہ دی۔



میاں صاحب نے ہزارہ ایکسپریس وے منصوبے کاسنگِ بنیادرکھا ۔


چئیرمین نیشنل ہائی وےاتھارٹی،شاہداشرف تارڑ نےتفصیلی بریفنگ دی ۔60 کلومیٹرپرمحیط ایکسپریس وےتین سالوں میں مکمل ھوگاجس پرلاگت 33بلین روپےآئےگی۔اس منصوبہ میں 6انٹرچینج،20 پل،2ریلوےپل،15انڈرپاس اور 150 زمین دوزنالیاں بنائی جائیں گی۔ابتداءمیں یہ 4لین منصوبہ ھےجسےبوقتِ ضرورت 6 لینزتک توسیع دیدی جائےگی


میاں صاحب نے خطاب کےدوران یونیورسٹی کاوعدہ کیاھے،جس پروہاں کی عوام پرامیدھے۔


چونکہ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہ تھا تو کچھ بدنظمی بھی دیکھنےمیں آئی،مگرحیرانی اس بات کی ھےکہ بدانتظامی بیک سٹیج تھی۔ خیربڑےبڑےجلسوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ھوتی رھتی ھیں ۔
خطاب کےبعدمیں جلسہ گاہ سے باہرنکلی تو لوگوں کاسیلاب تھاجوخوشی سےپھولےنہیں سمارھےتھے۔کچھ شرکاءسےبات چیت کی جس کاذکرکرنافرض ھے۔خواتین کی ایک بڑی تعدادموجود تھی۔کچھ سےجائزہ بھی لیا،مگرسب اپنی مرضی سےخوشی میں آئے۔ایک خاتون اپنی دوبیٹیوں اور 3 بیٹوں کیساتھ تھیں،شوہرمزدوری کیلیےبیرون ملک ھے۔دریافت کرنےپر بتایاکہ ہمارےعلاقےکو بہت بڑی سہولت مل رھی ھےشکریہ ادا کرنےآئےھیں۔

 


محمدارباب خان کاکہناتھاکہ "میاں صاحب نےہم پراحسان کیا،بہترین کام ھے۔ہسپتال آنےجانےمیں مریضوں کوسہولت ھوجائے گی۔" جب ان سے عمران خان بارے سوال کیا تو جواب تھا "باجی ووٹ تودیاتھا،مگرافسوس ہےکہ یہ اتنا بچہ ذھن قسم کاسیاستدان نکلا۔"اورایک نعرہ فضاءمیں بلندکرتاآگےبڑھ گیا۔
    


علی آستان کا کہناتھا "جوبھی آئے،بس ہمارےعلاقےکوبھی پاکستان کا حصہ سمجھے۔میاں صاحب کوووٹ نہیں دیاتھامگراگلےالیکشنزمیں انہی کاووٹ ھے۔وعدہ پوراکیاھے۔" اپنےہاتھوں سےکاغذپرنام لکھ کربتایاکہ ایسےلکھتےھیں۔


      

کراچی سےراجہ اخترصاحب صرف اس افتتاح کی خاطرتشریف لائےتھے۔"ہمارےعلاقےمیں بہت بڑی ترقی کی شروعات ھیں ۔ہم ہزارہ والوں نےآنکھ بندکرکےاعتمادکیاتھا،میاں صاحب نے حق اداکردیا۔بہت بڑاوعدہ تھاجسےپوراکرنےکاپہلاقدم ھے۔"جب عمران خان بارےدریافتکیا تو جواب تھا"جس بندےکوسیاست کی الف بے نہیں پتاہم اس کیلیےبات کرکےوقت ضائع نہیں کرتے۔"شکریہ کہہ کرآگے بڑھی۔


     


ایک بزنس مین سلیم خان سے بات کرنےکا اتفاق ھوا۔ نہایت شفیق شخصیت،ایبٹ آبادسے تشریف لائے تھے۔ان کاکہناتھا "ہمارادیرینہ مطالبہ تھا،اورالیکشن سےپہلےہم سے وعدی کیاتھا۔زبان کاپکالیڈرھے۔ہم کاروباری افراد کواس منصوبےسے بہت توقعات ھیں۔"

   


صاحب محمدپرویزبھی تھےان کے بقول اسلام آبادسےاپنےعلاقےتک ساڑھےتین گھنٹےمیں پہنچے،اور اس منصوبےسےمریضوں کو بروقت ہسپتال لیجانےمیں آسانی ھوجائےگی۔سیاحت میں اضافہ ھوگاتوان کےعلاقےمیں روزگارکےمستقل مواقع پیدا ھوں گے۔
    

عامرزمان صاحب کاکہناتھاکہ ہزارہ موٹروےوعدوں کی تکمیل کیلیے میاں صاحب کی پہلی کوشش ھے جس کی کامیابی کیلیئےآج ہزارہ کی عوام دعاگوھے۔میرے پوچھنےپرکہنےلگےاگلا وعدہ صوبہ ہزارہ کاھےاورہم اچھی امید رکھتےھیں۔




ہزارہ کا رہائشی ایک شخص کراچی سے صرف اس منصوبےکی خوشی میں چھٹی لےکرآیاتھا۔ان کا کہناتھا"فوتگی ھوجائےیامریض کوہسپتال لیجاناھو،بہت مشکل ھوتی ھے،مگرامیدھےکہ میاں صاحب کےدورِ اقتدارمیں یہ منصوبہ عوامی سہولت کیلیےبہترین کام ھوگا۔مجھےمزدوری کیلیئےکراچی نہیں جاناپڑےگا۔" ان صاحب کی خوشی سنبھالےنہیں سنبھل رھی تھی۔




ایک باباجی ملےجواردونہیں سمجھ سکتےتھے،بھلاھوایک بچےکاجس نےترجمہ کردیا۔ان کا کہناتھا کہ ان کےعلاقےمیں نوجوانوں کیلیے روزگارےانئے مواقع پیدا ھورھےھیں اور سفری سہولت کی قدرکوئی پہاڑوں میں رھنےوالوں سےپوچھ کر دیکھے۔




غرض یہ کہ اس علاقےمیں لوگوں کےچہروں کا مان اور خوشی اللہ سلامت رکھے۔وزیراعظم میاں محمدنوازشریف پراعتمادکرکےجوووٹ انہوں نےدیئےان وعدوں کےپورا کرنےکاوقت آن پہنچاھے۔
ہزارہ کی عوام صوبہ کی صورت اپنی پہچان چاھتی ھےنیز بہترتعلیمی سہولیات کے مطالبےکوبھی دیکھناچاھیئے۔
شام ڈھل رھی تھی اور مجھےاحساس تھاکہ ایک بار پھراسی سنگل ٹریک روڈسےاسلام آباد واپس آناتھاجوکہ خاصامصیبت بھراتھا۔مگرآج کےدن ان لوگوں کے کھلکھلاتے چہروں نےسب کوفت مٹادی تھی۔میں واپس گھرکی جانب گاڑی بڑھاچکی تھی۔سورج پہاڑوں کی چوٹیوں سے جھانکتااورسب کودوبارہ آنےکااشارہ دیتاآسمان کوحسین رنگ عطاءکررہاتھا۔