کڑوی کسیلی اوربکھری سچائیوں کو جوڑ کر بننے والی زندگی میں جو شے پیدائش سے موت تک ساتھ رہتی ہے وہ بھوک ھے۔ بھوک کاادراک۔۔۔جبلت سے ضرورت تک کا سفراور "ھل من مزید" کی چاہ ۔ کھنکتی مٹی سےتخلیق کیا گیا انسان "بھوک" ماں کی کوکھ سے ساتھ ہی لاتاہے۔اس لمحے دنیا میں خالص ترین رشتہ بچے کو سینے سے لگائے خالص ترین غذا سے سیر کرتا ہے۔وقت سرکتا ہے تو پیٹ کی بھوک ضروت بنتی جاتی ہے کہ جب ماں راتوں کو فکر سے اٹھ کر انتظام کرنے کی بجائے میز پر سجانے لگتی ہے۔ معاشرہ، معاشی حالات، جینز اورتربیت یہ سب عناصرہر انسان کو بھوک کی مختلف انواع سے روشناس کرواتے رہتے ہیں۔بازار بھرا پڑا ہے۔جس کا جو مَن چاھتا ہے، جو طبیعت مانتی ہے اور جیسے وقت کی تربیت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے وہ ویسی ہی "بھوک" چُن لیتا ہے۔ہاں مگر سب سے بڑی حقیقت پیٹ کی بھوک ہی ہے۔اس کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرگزرتا۔اس بھوک کو بھی وہی جانتا ہے جس نے پہروں نہیں زمانوں جبر کیا ہو، میلوں پیدل چلا ھو کہ شہر کے فلاں کونے میں آج رات کا کھانا سستا مل جائےگا، اچھےکل کے انتظار میں آج بھوکا سویا ہو،کسی لنگر سےایک وقت کھا لیا ہو، پردیس میں کوئی ٹھیلہ تلاش کیا ہو۔یہ بھوک تو وہ بیوہ بھی جانتی ہے جس نےمرحوم شوہرکی آخری نشانی ایک انگوٹھی بیچ کر راشن لانے کی بجائےوہ رقم سرکاری کلرک کی ہتھیلی پر رکھی ھوگی تاکہ کسی طور پینشن کااجراء ہوجائے ۔
پیٹ کی اس بھوک کی "آہ" کو تھر اور چولستان کی ماؤں سے بہتر کون جان سکتاہے۔ ماں کا کلیجہ کیسے منہ کوآتا ہوگا جب بھوک سے بِلکتا معصوم ہاتھوں میں جان اس خالق کے سپرد کر دیتا ہے جس نے اس بچے کا رزق ملک کے حکمرانوں کے ذمہ لگایا تھا۔دور کہیں قحط زدہ ملک میں بھوک پیاس سے بلکتا بچہ یہ نہیں جانتا کہ آج کس ملک نے اس کے حکمراں کے ساتھ "خوشحالی" کے کتنے معاھدوں پر دستخط کیے۔وہ جانتا ہے تو بس یہ کہ آخری بار جب کچھ کھایا تھاتو ماں نے اپنے حصےمیں سے بھی نوالہ بنا کر اُس کو کھلادیا تھا۔
یہ جو انواع و اقسام کے پھل، سبزیاں اور
فصلیں رب سوہنے نے ایک "کُن" سے اُگا ڈالیں یہ سب پیٹ کی آگ ٹھنڈا کرنے کا
ہی تو سامان ہے۔ہاں مگر غیرمنصفانہ تقسیم اوپر والے کی نہیں انسانوں کی بنائی ہوئی
ہے۔ھزارہا قسم کےلوازمات، لاکھوں طرح کے کھانے۔۔۔ یہ تو اس بھوک کی پوجا کرنے کو ایجاد
کرلیےگئے۔ میٹھا، کھٹا، گرم، ٹھنڈا، پھیکا اور تیکھا کیا کچھ نہ ڈھونڈ لیا انسان
نے، مگر یاد رہے یہ پیٹ سے زیادہ زبان کی تسکین کا سامان ہے۔ قوتِ شامہ کے بہلانے کو
آدمی کتنے جتن کرتا ہے کہ پیٹ کی بھوک کو بھی ملوث کر ڈالا ہے۔
کہتے ہیں شہد،ریشم اورنفس۔۔۔بھوک انہی تین مرکبات کا مجموعہ ھے۔غور کیجیے تو انہی سے ذیلی شاخیں نکلتی ہیں۔شہد کےنام پرایک گھرمیں کتنی ہی اقسام کےکھانے پکتے ہیں۔ اور ریشم کی بھوک ہردو صورتوں میں عجب ہے۔ پیٹ کی بھوک کے بعد تَن کی بھوک شروع ہوجاتی ہے۔اس کو سنوارنا، نکھارنا اوراچھا لباس۔۔۔کِس کو چاہ نہیں ہوتی۔بعض اوقات اسی سے تونفس تک کی راہ نکالی جاتی ہے۔ پیٹ کی بھوک مٹاتا انسان اس نفس کے چنگل میں ایسا پھنستا ہے کہ جب گردن تک دھنس چکا ہوتا ہے، احساس ہی تب ہوتا ہے۔اور نفس کی بھوک ہی تو ہے جو اخبارات کی زینت کا ساماں ہوچکی ۔ایک بھوک نگاہ کی بھی ہے۔نفس ہی کی ذیلی شاخ ہے۔آنکھوں سے یہ انسان وہ کرگزرتا ہے کہ خمیازہ بھگتتے برسوں بیت جاتے ہیں۔اور کبھی دوسروں کیلیے تکلیف کے سوا کچھ راہ نکلتی ہی نہیں۔
حکمرانی کی بھوک نے انسان سے کیا کچھ نہ کروا ڈالا۔آج تک جنگیں چل رہی ہیں،نام مختلف رکھ دینے سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔کتنے ہی "تاریک راہوں میں مارےگئے"۔مگریہ تخت وتاج کی بھوک بھی "تہیا تہیا" ناچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اسی بھوک نے سکندر کوآدھی دنیا کے بعدبھی سیر نہ کیا، اسی بھوک میں لوگ کبھی مخالف کومغلظات اور بہتان سے نوازتے ہیں اور کبھی اپنے چاہنے والوں کا مان پاؤں تلے کچلتے اسی مخالف سے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔
دماغی بھوک کا بھی کوئی علاج نہیں۔ انسان کےسامنے دنیا ڈھیر کردیجیے مگر دماغ کی بھوک کیونکر مٹے۔ایسے لوگوں کو دنیا میں ہی عبرت بنا دیاگیا ہوتا ہے۔ انسان ہو یا جانور، توجہ حاصل کرنا کون نہیں چاہتا۔مسئلہ تو تب ہے کہ جب انسان اسے "بھوک" بنا لیتا ہے۔اسی اشتہا میں سنگھار بھی ہوگا، ہنسی اور روٹھنا منانا بھی۔جبلت میں مگر تکرار اور محض تنقید برائے تنقید کے علاوہ جھگڑنے کا عنصر بھی شامل ہو تو یہی توجہ کی بھوک دوآتشہ ہو جاتی ہے۔انسان یہ سوچنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے کہ وہ کس منفیت کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔اسے چاہیے تو بس زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اور اس کے لیے وہ ہر حد پار کرلے گا۔
علم کیلیے کسی کو پیاس عطاء کردی گئی اور کئی ایسے بھی دیکھے جنہیں علم بھوک کی صورت لاحق ہوجاتاہے۔نصیب اور ظرف کی تقسیم ہے یہ بھوک اور پیاس بھی۔ وقت کا دائرہ تنگ ہوتا جاتا اور بھوک کی حدود بڑھتی جاتی ہیں۔ہر گزرتا پل اس جبلت کوضرورت اورپھر ناسور بناتا ایک نئی جہت سے متعارف کرواتا ہے۔ بھوک تو ایک ہی ہے،جو موت سے قبل اس خوابیدہ وقت کی واحد حقیقت ہے۔باقی تو بس ایک پردہ ہے جو ہوس اور تھکن کےسوا کچھ نہیں۔دیگر جو باتیں بھوک کی اقسام میں شمار کرلی گئیں وہ تو کچھ الگ ھی معاملہ ہے۔ بابافرید نے کیا خوب فرمایا
پنج رکن اسلام دے ، تے چھیواں فریدا ٹُک
کہتے ہیں شہد،ریشم اورنفس۔۔۔بھوک انہی تین مرکبات کا مجموعہ ھے۔غور کیجیے تو انہی سے ذیلی شاخیں نکلتی ہیں۔شہد کےنام پرایک گھرمیں کتنی ہی اقسام کےکھانے پکتے ہیں۔ اور ریشم کی بھوک ہردو صورتوں میں عجب ہے۔ پیٹ کی بھوک کے بعد تَن کی بھوک شروع ہوجاتی ہے۔اس کو سنوارنا، نکھارنا اوراچھا لباس۔۔۔کِس کو چاہ نہیں ہوتی۔بعض اوقات اسی سے تونفس تک کی راہ نکالی جاتی ہے۔ پیٹ کی بھوک مٹاتا انسان اس نفس کے چنگل میں ایسا پھنستا ہے کہ جب گردن تک دھنس چکا ہوتا ہے، احساس ہی تب ہوتا ہے۔اور نفس کی بھوک ہی تو ہے جو اخبارات کی زینت کا ساماں ہوچکی ۔ایک بھوک نگاہ کی بھی ہے۔نفس ہی کی ذیلی شاخ ہے۔آنکھوں سے یہ انسان وہ کرگزرتا ہے کہ خمیازہ بھگتتے برسوں بیت جاتے ہیں۔اور کبھی دوسروں کیلیے تکلیف کے سوا کچھ راہ نکلتی ہی نہیں۔
حکمرانی کی بھوک نے انسان سے کیا کچھ نہ کروا ڈالا۔آج تک جنگیں چل رہی ہیں،نام مختلف رکھ دینے سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔کتنے ہی "تاریک راہوں میں مارےگئے"۔مگریہ تخت وتاج کی بھوک بھی "تہیا تہیا" ناچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اسی بھوک نے سکندر کوآدھی دنیا کے بعدبھی سیر نہ کیا، اسی بھوک میں لوگ کبھی مخالف کومغلظات اور بہتان سے نوازتے ہیں اور کبھی اپنے چاہنے والوں کا مان پاؤں تلے کچلتے اسی مخالف سے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔
دماغی بھوک کا بھی کوئی علاج نہیں۔ انسان کےسامنے دنیا ڈھیر کردیجیے مگر دماغ کی بھوک کیونکر مٹے۔ایسے لوگوں کو دنیا میں ہی عبرت بنا دیاگیا ہوتا ہے۔ انسان ہو یا جانور، توجہ حاصل کرنا کون نہیں چاہتا۔مسئلہ تو تب ہے کہ جب انسان اسے "بھوک" بنا لیتا ہے۔اسی اشتہا میں سنگھار بھی ہوگا، ہنسی اور روٹھنا منانا بھی۔جبلت میں مگر تکرار اور محض تنقید برائے تنقید کے علاوہ جھگڑنے کا عنصر بھی شامل ہو تو یہی توجہ کی بھوک دوآتشہ ہو جاتی ہے۔انسان یہ سوچنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے کہ وہ کس منفیت کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔اسے چاہیے تو بس زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اور اس کے لیے وہ ہر حد پار کرلے گا۔
علم کیلیے کسی کو پیاس عطاء کردی گئی اور کئی ایسے بھی دیکھے جنہیں علم بھوک کی صورت لاحق ہوجاتاہے۔نصیب اور ظرف کی تقسیم ہے یہ بھوک اور پیاس بھی۔ وقت کا دائرہ تنگ ہوتا جاتا اور بھوک کی حدود بڑھتی جاتی ہیں۔ہر گزرتا پل اس جبلت کوضرورت اورپھر ناسور بناتا ایک نئی جہت سے متعارف کرواتا ہے۔ بھوک تو ایک ہی ہے،جو موت سے قبل اس خوابیدہ وقت کی واحد حقیقت ہے۔باقی تو بس ایک پردہ ہے جو ہوس اور تھکن کےسوا کچھ نہیں۔دیگر جو باتیں بھوک کی اقسام میں شمار کرلی گئیں وہ تو کچھ الگ ھی معاملہ ہے۔ بابافرید نے کیا خوب فرمایا
پنج رکن اسلام دے ، تے چھیواں فریدا ٹُک
جے نہ
لبھے چھیواں ، تے پنجے ای جاندے مُک