ہفتہ، 2 اپریل، 2016

پنجاب اسمبلی کا تحفظِ نِسواں بِل

ایک ماہ سے جاری لاحاصل بحث کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔تحفظِ نسواں بِل کو ایک مکتبۂ فکر نے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ٹی۔وی سکرینوں پر سات سے بارہ بجے تک وہ رونق لگا رکھی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔یاد رہے کہ یہ وہی کیمرے اور مائیکس ہیں جو کبھی حرام اور ان کے تشریحاتی دینِ اسلام کے منافی رہےہیں۔وقت کے ساتھ اب "بذریعہ اجتہاد" سب حلال ہے۔
آئینِ پاکستان میں اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں نے صحت ، تعلیم ، روزگار اور بنیادی حقوق جیسے معاملات میں قانون سازی کا جو آغاز کیا ہے اِس ضمن میں اہم سنگِ میل گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظِ نسواں بِل کی صورت میں عبور کیا گیا ہے۔سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں قانون سازی عمل میں آچکی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ نے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور روک تھام کا بِل
۲۰۱۴ء  آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کو نظرِ ثانی کے لیے طویل عرصہ سے بھجوا رکھا ہے۔جس کا مستقبل فی الحال تو دھندلا ہی دکھائی دیتا ہے۔ 
سندھ اسمبلی نے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور روک تھام کا بِل مارچ ۲۰۱۳ء میں پاس کیا تھا۔ جِس میں متاثرہ شخص کوئی مرد ،خاتون اور بچہ ہوسکتےہیں۔ جبکہ بلوچستان اسمبلی سے ایسا ہی بل فروری ۲۰۱۴ء میں پاس ہو کر صوبائی گورنر کے دستخط کے بعد سے نافذ العمل ہے۔یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پنجاب اسمبلی فائزہ ملک  ۲۰۱۲ء میں ایک قرارداد لائی تھیں جسے اُس وقت ن لیگ کے اراکین نے اختلافات کے باعث پاس ہونے نہیں دیا تھا۔لیکن وہ قرارداد تحفظِ نسواں کی تعریف پر پوری یوں نہیں اترتی کہ اُس میں ایک ہی چھت تلے رہنے والے ملازمین، بچے ، خواتین اور بزرگ سب شامل تھے۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن ، چائلڈ میرج اور سوشل پروٹیکشن ، فیملی کورٹس اور مسلم فیملی لاء کے حوالوں سے الگ الگ قوانین یا ترامیم پاس ہو چکی ہیں۔
متعلقہ شعبہ جات اور سول سوسائٹی کی مدد سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے سینئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ برائے امن و امان سلمان صوفی کا ڈرافٹ کردہ تحفظِ نسواں بِل مئی ۲۰۱۵ء سے التواء کا شکار تھا اور چوبیس مارچ ۲۰۱۶ء کو جِس وقت اسے پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے منظور کیا تو ۳۷۱ میں سے کُل ۱۹۳ اراکینِ اسمبلی حاضر تھے۔جبکہ ۷۶ خواتین اراکینِ اسمبلی میں سے ۴۴ موجود تھیں۔جِس وقت آپ ایک مخصوص طبقے کے تحفظات اور اکتیس نکات پر مشتمل اِس بِل کو پڑھے بِنا بحث کرنے پر انگلیاں اٹھاتےہیں تو کیا ہی مناسب ہو کہ صوبائی حکومت اپنی صفوں میں بھی نگاہ دوڑا لے۔ 
 
آخر پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ تحفظِ نسواں بِل میں ایسا کیا ہے جو مذہبی تنظیموں اور علمائے کرام کو آگ بگولہ کیے جاتا ہے نیز ایسا سخت ردِ عمل سندھ اور بلوچستان میں پاس کردہ قوانین کے وقت دیکھنے میں کیوں نہ آیا۔یہی سوالات نے مجھے اِس بِل کو بارہا پڑھنے اور سمجھنے پر مجبور کیا ہے۔
جس دِن سے مذکورہ بِل منظور ہوا ہے عین اس لمحے سے ایک جملہ جو ہر بحث میں سننے کو مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ " خاندانی نظام بکھر جائے گا،طلاق کی شرح بڑھے گی۔" حتیٰ کہ ایک سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی نے فلور آف دا ہاؤس کہا کہ "مذہب مرد کو حق دیتا ہے کہ وہ عورت کو پیٹ سکتا ہے جبکہ خاتون پر فرض ہے کہ وہ اس خبر کو گھر کی چار دیواری سے باہر جانے نہ دے۔" قانون سازی کرنے والے عوامی نمائندگان کی یہ انفرادی سوچ اجتماعی معاملات کی قلعی اچھے سے کھول رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا منظور شدہ تحفظِ نسواں بِل لفظ تشدد کی اس طرح کثیر الجہت واضح تعریف بیان کرنے سے قاصر ہے جیسی فصاحت ہمیں سندھ اسمبلی کے قانون میں دکھائی دی۔ مگر یہاں جس نقطے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ ہے اس تمام قانون کو مؤثر انداز میں عملی جامہ پہنا کر نافذ العمل بنانا ہے۔
ابتدایہ نکات میں متاثرہ خاتون کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والوں کی تعریف بتا دی گئی ہے۔جس پر غور کرنا گوارا ہی نہیں کیا جارہا۔لفظ "قرابت داری " استعمال کیا گیا ہے جس میں تمام خونی رشتے ہوتےہیں۔دوسرے نمبر پر آتے ہیں وہ رشتے جو شادی کے بعد بنتے ہیں جن میں شوہر ، ساس اور دیگر تمام سسرالی رشتہ دار شامل ہیں جبکہ آخر میں اُن بچیوں کو بھی تحفظ دیا گیا ہے جو لے پالک ہوں۔کہیں بھی کسی مقام پر لفظ شوہر استعمال نہیں ہوا جس پر سب واویلا ہے کہ طلاق کی شرح بڑھے گی۔اس کے بعد تشدد کے ضمن میں جسمانی ہی نہیں نفسیاتی دباؤ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔جنسی تشدد، تعاقب کرنا اور ہراساں کرنا جبکہ سائبر کرائمز کو بھی اِس قانون میں شامل کرکے معاشرے کی بچیوں کو محفوظ زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔
 
قانون کو عملی جامہ پہننے کے لیے یونیورسل ٹول فری نمبر کی سہولت دی جائے گی۔پروٹیکشن سینٹرز اور شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے جہاں متعلقہ عملہ بھرتی کیا جائے گا۔اِن سینٹرز کا پہلا کام فریقین میں ثالثی اور صلح صفائی کی فضاء بحال کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ طبی معائنہ،علاج، نفسیاتی اور قانونی مدد کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی عملے ہی کی ذمہ داری ہوگی۔اس قانون کی اردو اور علاقائی زبانوں کی عام لوگوں تک رسائی کو آسان بنایا جائے گا۔نیز یہ کمیٹی بروقت عمل درآمد کے لیے ایک ڈیٹا بیس  اور سوفٹ وئیر مرتب کرے گی تاکہ مسائل کی چھان بین،تشخیص و تقویم کے طریقۂ کار میں جہاں اور جب ضرورت ہو ریفارمز لانا ممکن ہو۔۔۔یاد رہے کہ کسی قانون میں ترمیم اور قانون کی کسی شِق میں وضاحت کی ضرورت میں فرق ہوتا ہے جو ہمارے ہاں کچھ مذہبی جماعتیں سمجھنے سے انکاری دکھائی دے رہی ہیں۔
 
ضلعی سطح پر ایک خاتون افسر کو مجاز بنایا جائے گا جو اپنے ضلع میں خواتین کی شکایات کا ازالہ کرے گی۔ڈی۔سی۔او کی سربراہی میں بننے والی اِس ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن کمیٹی میں درج ذیل افراد شامل ہوں گے
ضلعی ہیلتھ افسر
کمیونٹی افسر
سوشل ویلفئیر کا ضلعی افسر
ضلعی پولیس کے سربراہ کا نمائندہ
ضلعی سطح پر سرکاری وکیل
تحفظِ نسواں قانون کے تحت ضلعی سطح پر مقرر کردہ خاتون افسر
اس کے علاوہ حکومت چار غیر سرکاری اراکین جن میں سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کے نمائندگان شامل ہوں،کو کمیٹی کا حصہ بنائے گی جن کی رہائش متعلقہ ضلع میں ہو۔بحالی مراکز،ٹول فری نمبر،عملہ بھرتی اور اُس کی ٹریننگ جیسے معاملات کے علاوہ اِس کمیٹی کا پہلا فرض فریقین کے مابین ثالثی اور مصالحت ہوگا۔عدالت خود سے کسی ایسے معاملےکا نوٹس نہیں لے سکےگی جب تک کہ وومین پروٹیکشن کمیٹی عدالت کو درخواست نہیں دے گی۔یہ اہم نکتہ بہرحال ہمارے ہاں نظر انداز کیا جارہاہے۔بالکل جیسا کہ یہ قانون کی یہ شِق سامنے نہیں لائی جا رہی کہ غلط معلومات/شکایت کے اندراج کی صورت میں تین ماہ کی سزا اور کم از کم پچاس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے تک کے جرمانے کی سزا ہوگی۔
اِس قانون کے آغاز سے ایک سو بیس روز کے اندر حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ پروٹیکشن سسٹم سے شیلٹر ہومز کی ریگولیشن تک کے تمام معاملات پر مؤثر قانون سازی کرے۔جبکہ دو سال کے اندر قانون سے غیرمتصادم دفعات کو متعارف کروایا جاسکے جن کے ذریعے عملدرآمد کے طریقۂ کار میں موجود سقم دور کرنے میں مدد ملے۔
متاثرہ خاتون خود یا اُس کی جانب سے مقرر کردہ شخص ڈسٹرکٹ وومین پروٹیشن آفیسر کو تین طرح کی شکایات کر سکتے ہیں؛ ۱۔ تحفظ  ۲۔ سکونت/رہائش کے مسائل  ۳۔ مالی و معاشی معاملات ۔۔۔رپورٹ کے اندراج کے علاوہ ضلع بھرمیں کسی بھی تھانے میں ایسی کوئی رپورٹ درج ہو تو اس پر بھی ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن کمیٹی کی رسائی ممکن ہوگی۔عدالت درخواست داخل کروانے کے سات روز کے اندر کی تاریخ دینے کی پابند ہوگی۔جِس میں مدعا الیہ کو نوٹس جاری کیا جائے گا کہ وہ بے گناہی ثابت کرے کہ کیوں اُس کے خلاف کاروائی نہیں ہونی چاہیے۔ناکامی کی صورت میں عدالت مقدمے کو نوے روز کے اندر نبٹانے کی پابند رہے گی۔اِس میں ہمارے ہاں کےایک طبقے کو کیا قباحت دکھائی دیتی ہے،سمجھ سے بالا ہے۔کیا بہنیں ،بیٹیاں برسوں عدالتوں میں خوار ہوتی،در بدر کی ٹھوکریں کھاتی رہیں یا پنجابی والا "ھاؤ پرے" کرکے دو پاٹوں میں پستی رہیں۔اگر عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے کہ مدعا الیہ تشدد کا مرتکب ہوا ہے تو اِس بنا پر عدالت معاملے کی سنگینی اور ساخت کے اعتبار سے  ابتدائی حکم جاری کرسکتی ہے۔جس میں متاثرہ خاتون کا اُسی گھر میں رہنا یا بحالی مرکز بھجوانا شامل ہے۔اگر خاتون کو طبی یا نفسیاتی معاملے میں بحالی کی ضرورت ہے تو اِس کے لیے پروٹیکشن سیل اور شیلٹر ہومز کو بھجوایا جائے گا۔مدعا الیہ اپنی ملکیت میں موجود اسلحہ عدالت میں جمع کروانے کا پابند ہوگا۔عدالت حکم دے سکتی ہے کہ فریقین ایک ہی چھت تلے کچھ فاصلے پر رہیں گے یا فیصلہ آنے تک ایک فریق گھر سے دور۔متاثرہ خاتون کے نام پر کسی بھی قسم کی جائیداد اور دستاویزات اس کے حوالے کی جائیں۔گھر کسی کے نام پر منتقل یا فروخت نہیں کیا جاسکے گا مگر متاثرہ خاتون ہی کو۔۔۔ 

ایک معاملہ جو جراح کا سب سے بڑا موجب بنا ہوا ہے وہ ہے بازو یا ٹخنے میں مقررہ مدت تک پہنایا جانے والا بینڈ (میں اسے کڑا کہنے سے گریز کروں گی،کیونکہ اکثر لوگ اسے مردانیت پر حملہ تصور کررہے ہیں۔)۔ یہ جی۔پی۔آر۔ایس بینڈ صرف انتہائی نتائج کے خطرے کی صورت میں پہنایا جاسکے گا۔جس کا مقصد مدعا الیہ کو متاثرہ خاتون کے کام کے مقام اور شیلٹر ہوم وغیرہ سے دور رکھنا ہے۔تاکہ اُسے احساس رہے کہ اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا رہی ہے اور وہ تیزاب گردی،اقدامِ قتل یا تشدد کے تحت زدو کوب کرکے بڑا نقصان پہنچانے سے گریز کرے۔

خاتون پر معاشی دباؤ کو جرم ماننے پر کچھ علماء فرماتے ہیں کہ جس کی آمدن کم ہو وہ تو جیل میں جائے گا۔حیرت ہے کہ یہ لوگ بل میں موجود وہ شِق کیوں نظر انداز کرتے ہیں جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ عدالت کسی بھی فیصلے سے قبل مدعا الیہ کی معاشی حالت کا احترام کرتے اس کی آمدن کو مدِنظر رکھے گی۔ہمارے ہاں وہ طفیلیے بھی پائے جاتے ہیں جو خواتین کی محنت کی کمائی پر اپنا حق جتلاتے اسے زد وکوب کرتےہیں۔ اِس قانون کے تحت خاتون اپنی تنخواہ کسی کو دینے کی پابند نہیں اور جو کوئی زبردستی کرے تو وہ ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن آفیسر کو شکایت کرسکتی ہے۔مالی معاملات میں اگر کسی متاثرہ خاتون کی نوکری مدعا الیہ کی وجہ سے چھوٹ گئی یا کوئی طبی امداد کی ضرورت ہو یا خاتون کے مالکانہ حقوق پر مشتمل املاک کو نقصان پہنچایا جائے تو ہرجانہ مدعا الیہ کو ادا کرنا ہوگا۔نیز نان نفقہ کے معاملات فیملی لاء کے تحت حل کیے جائیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت اپنی ویب سائٹ پر کسی بھی کیس کی تمام معلومات مفت فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔کیس کی تمام تفصیلات، تحفظ و بحالی کے لیے اٹھائے اقدامات فریقین کی تفصیل جاری ہوگی۔لیکن حکومت کسی بھی کیس میں تمام یا کچھ تفصیلات جن بنیادوں پر پبلک نہ کرنے کا عندیہ دے سکتی ہے ان میں پرائیویسی،مستقبل کے تحفظ ، معاشرتی وقار، ایسی تفصیل جو معاشرےمیں تعصب کو ہوا دے نیز کسی بھی افسر کی زندگی کو مستقبل میں خطرہ ہو ، شامل ہیں۔ اِس برس جون تک ملتان میں اس قانون کے تحت پہلا پروٹیکشن سیل مکمل ہوجائے گا جِس میں شیلٹر ہوم اور مذکورہ تمام سہولیات میسر ہوں گی۔
اس مختصر جائزے کے بعد بھی لکھاری سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر وہ کون سی شِق یا لفظ ہے جو اسلام اور (اب تو) دو قومی نظریہ سے متصادم ہے۔کچھ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تشدد تو اِس معاشرے میں ہوتا ہی نہیں تو ان کی تسلی کے واسطے۔۔۔ ڈیڑھ سال قبل عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سال ۲۰۱۴ء کے دوران ۲۱۷۰ اغواء،۱۶۱۰ قتل ،۱۵۱۵ زناءبالجبر،ن۹۳۱ خود کشی ، ۷۱۳ غیرت کے نام پر قتل ،۴۹۴ گھریلو تشدد،۷۴  جنسی ہراساں ،۶۵ تیزاب گردی اور ۵۵ جلا کر ماردینے کے کیسز رجسٹرڈ ہیں۔جبکہ اس اجتماعی اعداد وشمار میں صوبہ پنجاب میں درج شدہ کیسز کی اوسط سب سے زیادہ ہے۔جس کی ایک وجہ شاید معاملہ آپس میں ختم کرنے کی بجائے درج کروانے کی روایت بھی ہے۔بہرحال کُل اعداد و شمار میں ۸۶ فیصد اغواء کاری ، ۶۰ فیصد قتل ، ۹۲ فیصد ریپ کیسز اور ۸۳ فیصد تیزاب گردی کی رپورٹنگ اسی صوبے میں ہوئی ہے۔ اِس صورتحال میں پھر بھی یہی کہا جائے کہ ایسے قانون کی ضرورت نہیں تو معاشرے میں عورتوں کے اجتماعی مستقبل بارے چہ مگوئیاں تو ہوں گی۔
بہرحال ۲۹ فروی ۲۰۱۶ء  کو پنجاب گزٹ میں یہ قانون شائع کیا جاچکا ہے اور اس میں موجود سقم یا خوبیوں پر بات کرنے کے لیے ایک کاپی حاصل کرکے پڑھنا کسی صورت غیر شرعی فعل نہیں۔ٹی۔وی شوز میں کسی محترم خاتون سماجی کارکن کے ساتھ حکومتی نمائندہ،ایک م کا نمائنذہبی جماعت کا نمائندہ اور ایک عدد اپوزیشن رہنما بٹھا کر لاحاصل اور بے نتیجہ گفتگو سے ہیجان برپا کرنے کی بجائے مجال ہے جو حکومت یا میڈیا نے کوشش کی ہو کہ آسان،عام فہم زبان میں اِس قانون کے اہم مندرجات کو مختصر طور پر عوام کو سمجھایا جائے تاکہ وہ سستا چورن خرید کر نفرتوں کی آبیاری سے دور رہیں۔

2 تبصرے:

  1. بہت بہترین ، جامع آرٹیکل مگر فایدہ تبھی جب " شاید کہ تیرے دل میں اتر جاۓ میری بات " مگر بات اس معاشرے کے اکثر "پڑھے لکھے " کلین شیو ملا ں ذہنیت والوں کو بھی پسند نہیں داڑھی والے مولوی حضرات کی تو بات ھی چھوڑ دیں ! خیر .... ہم نے آپنا فرض نبھایا آگے کا اللہ مالک

    جواب دیںحذف کریں
  2. کاش کہ کوئی حکومتی عہدیدار اسی طرح آسان الفاظ میں یہ بل ٹی وی پر سمجھا دے تا کہ عوام میں موجود شکوک تو دور ہوں

    جواب دیںحذف کریں