بدھ، 16 مارچ، 2016

شکنجہ

ریلوے اسٹیشن کی قریبی آبادیاں اور ریلوے کالونیوں کے رہائشی بخوبی جانتے ہیں کہ سال میں کونسا موسم ہوتا ہے جب ان کے گھر کے اسٹور رومز،باورچی خانے اور پرانی الماریوں میں چوہوں کی آمد و افزائشِ نسل ہوتی ہے۔لاکھ طرح کے جتن کرلیے جائیں یہ بِن بلائے مہمان ضرور آ دھمکتے ہیں۔ اور زیادہ تر گھرانے انہیں بھگانے ، مارنے یا جان چھڑوانے کے حسبِ استطاعت مہنگے ، سستے اور طویل یا قلیل مدتی انتظامات کرتےضرور ہیں۔اگرچہ کچھ گھرانے ایسے بھی دیکھے ہیں جو میوچل انڈر سٹینڈنگ اپناتے ہوئے پرواہ نہیں کرتے۔حتیٰ کہ مہمانوں کے سامنے شرمندہ ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
ایک تو ہوتا ہے سفیدی مائل اور سرمئی رنگ کا چھوٹا چوہا جس کیلیے آج بھی ہر شہر کے بڑے بازار کے گول چکر میں ایسی گولیوں اور پاؤڈر کی خرید و فروخت ہوتی ہے جو بیک وقت چھپکلی،لال بیگ اور چوہے سب کےلیے مؤثر کارکردگی کے دعوے کا لیبل لگوائے دستیاب ہے۔اور ایک ہوتا ہے تھوڑا درمیانی صحت و جسامت والا چوہا اس کےلیے شکنجہ ملتا ہے جسے عام زبان میں  کُڑُکّی  کہا جاتا ہے۔ اور ایک اور ہوتا ہے وہ بدبو دار اور کراہت آمیز آواز نکالنے والا بڑا چوہا ۔ رنگ اِس کا سیاہی مائل گندمی ہوا کرتا ہے۔یہ آپ کو لاہور اور پنڈی ریلوے اسٹیشنوں پر شانِ بےنیازی سے گھومتا پھرتا دکھائی دیتا ہے ۔اس سے نبٹنے کے لیے مارکیٹ میں پنجرہ دستیاب ہے۔غرضیکہ ہر قسم کی مصیبت کے لیے ہر طرح کا مال بازار سے بارعایت حاصل کیجیے اور وبال سے جان چھڑوایے (اگر  کراہت آتی ہے اور ارادہ ہے تو)۔
بہرحال جناب قصہ مختصر یہ کہ تھوڑی ہوش سنبھالی تو دادی کو  نیلا تھوتھا نما کوئی سفوف آٹے میں ملا کر گولیاں بناتے اور گھر کے کونے کھدروں میں پھینکتے دیکھا کرتے تھے۔پھر آگیا دور مورٹین ریٹ کِلر کا جو کہ ہم اکثر ہی اپنےجیب خرچ سے منگوا کر موسم شروع ہونے سے قبل ہی گھر میں ڈال لیتے تھے۔فائدہ اِس کا یہ ہوا  کہ چوہے اس فیروزی دوا کو کھاتے اور باہر کھلی فضا میں جا کر مرتے جِس سے گھر میں تعفن پھیلنے اور پھر بھائیوں کا منت ترلہ کرکے اٹھوانے کی کوفت سے نجات مِلی۔ یہ سہولت بھی آخر کب تک رہتی۔درمیانی صحت کے چوہوں کا حملہ ہوا تو شکنجہ لانا پڑا۔۔۔تعداد اتنی بڑھی کہ تین شکنجے گھر کے مختلف کونوں میں رکھے۔ایک میں مکھن لگی روٹی کا ٹکڑا پھنسایا ، دوسرے میں پنیر جبکہ تیسرے میں سیب کا ٹکڑا رکھا(مارنا ہی ہے تو اچھا کِھلا کر قلع قمع کرو)۔آدھی رات کو ٹَھک ٹَھکا ٹَھک کی آوازیں آتیں اور ابا بھاگتے کہ ابھی شکنجہ فارغ کرو تاکہ اگلا شکار پھنسے۔خوب تماشہ رہتا۔
چچا کی پوسٹنگ چنیوٹ تھی اور ہم امتحانات سے فارغ ہوئے چچی کو شرفِ میزبانی بخشے ہوئے تھے۔جب اُن کے اسٹور روم میں دو چوہوں کا قبضہ سننے میں آیا۔ جن کی آوازوں نے دو روز سونے نہیں دیا،تیسرے دن اسٹور کا سب سامان صحن میں منتقل کیا گیا اور ایک موٹا ڈنڈا لیے چچا سٹور میں قابض سے جنگ کرتے پائے گئے۔ہمارے قہقہے پورے گھر میں گونج رہے تھے۔کوئی آدھ گھنٹے بعد دروازہ کھلا۔چچا بنیان تہمد میں ہانپ رہے تھے۔جھانک کر اندر دیکھا تو دھشت گرد چوہے شدید زخمی حالت میں زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے جبکہ چچا کے بچے اپنے ظالم ابا کو کوس رہے تھے جنہوں نے زخمیوں کو مرنے کیلیے کوڑے دان کی نظر کردیا۔خس کم جہاں پاک۔
ابا کی ترقی ہوئی اور ہم بڑے گھر میں منتقل ہوئے تو گھر ریلوے لائنوں سے اتنا قریب ہونے کا پہلا نقصان بڑے والے چوہوں کے خاندان کا ہمیں خوش آمدید کہنا تھا۔ہم سے پہلے جوگھرانہ یہاں آباد تھا ان کے بقول پینتیس سال سے وہ ان سے نجات حاصل نہیں کرپائے تھے۔بلی کے بلونگڑوں کی جسامت والے چوہوں کو شکنجے کیا کہیں جناب۔ بھائی نے پہلا کام جو کیا وہ پنجرہ لانے کا تھا۔اُس کے اندر پہلے روز پنیر رکھا تو چند منٹ میں ایک موٹا پلا پلایا چوہا قید ہوچکا تھا ۔مسئلہ تھا اسے اب مارنے کا۔بڑے بھائی نے ھینڈل کیساتھ رسی باندھی اور گھر کے سامنے نہر کنارے پنجرہ لے گئے۔ آدھے محلے کے بچوں کو ارد گرد اکٹھا کیا اور تماشہ دکھاتے پنجرے کو لگے ڈُبکیاں لگوانے۔ ہم دروازے کی اوٹ سے یہ منظر دیکھ کر کُڑھتے اپنا خون جلاتے رہے جبکہ اماں کے مطابق بھائی بہتر جانتا تھا کہ کیسے نبٹنا ہے۔صاحب بہادر نے پندرہ بیس منٹ یہ سرکس لگائے رکھا اور جب ادھ موئے چوہے میں مزید سہنے کی ہمت دکھائی نہ دی تو پنجرے کا بالائی راستہ کھول کر نہر بُرد کر کے ہاتھ جھاڑتے گھر آگئے۔ آتے ہی سیب کا نیا ٹکڑا پنجرے میں ڈال کر گھر کے اُس دروازے کے پیچھے رکھ دیا جہاں سے اِس مخلوق کا آنا جانا تھا۔ تجربہ کامیاب یوں رہا کہ ہفتے بھر میں ہی ان نہر تماشوں کے دوران گھر سارا پاک ہوچکا تھا۔
کہاوت ہے کہ انسان ہمیشہ چوہوں سے چھ فِٹ سے زیادہ کے فاصلے پر نہیں ہوتا۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کیونکہ ابھی سالوں سے ہمارے اِس نئےگھر میں ایسا کوئی شکار پھنسا نہیں۔وجہ شاید یہ بھی ہے کہ گاہے بگاہے ریٹ کِلرز کا چھڑکاؤ کرتے رہتے ہیں۔اور بچوں کو بھی بتا رکھا ہے کہ یہ کھانے والی گولیاں نہیں ہیں بلکہ بھگانے والی ہیں۔
نوٹ : اِس تحریر کا تعلق کسی قسم کے خاکی چوہوں سے نہیں ہے۔ہر طرح کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔

1 تبصرہ:

  1. "اگرچہ کچھ گھرانے ایسے بھی دیکھے ہیں جو میوچل انڈر سٹینڈنگ اپناتے ہوئے پرواہ نہیں کرتے" ہاہاہاہا
    بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں